بر صغیر کی تاریخ کا اہم سنگِ میل

318
گرددو پیش
آصف جیلانی (لندن)

پورے 78برس قبل چوبیس مارچ کو لاہور کے منٹو پارک میںآل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرارداد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی اور سات سال کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔
گو اس قرار داد کو قرار دادِ پاکستان کہا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قرارداد میں کہیں بھی پاکستان کا نام رقم نہیں تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس قرار داد میں برصغیر میں مسلمانوں کی واحد مملکت کے بجائے مملکتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اس میں چھ سال بعد اس انداز سے ترمیم کی گئی کہ اس پر بنگال کے رہنما اشکبار سراپا احتجاج بن گئے تھے۔
ان اہم پہلووں کے تفصیلی ذکر سے پہلے، ان حالات اور پس منظر پر نظر ڈالنی بہت ضروری ہے جس میں آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ تاریخی اجلاس منعقد ہوا تھا۔
برصغیر میں برطانوی راج کی طرف سے اقتدار عوام کو سونپنے کے پہلے مرحلے میں انیس سو چھتیس، سینتیس میں جو پہلے عام انتخابات ہوئے تھے ان میں مسلم لیگ کو بری طرح سے ہزیمت اٹھانی پڑی تھی اور اس کے اس دعوے کو شدید زک پہنچی تھی کہ وہ برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ اس وجہ سے مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنوں کے حوصلے ٹوٹ گئے تھے اور ا ن پر عجب بے بسی کا عالم تھا۔

15-1
کانگریس کو مدراس، یوپی، سی پی بہار اور اڑیسہ میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی۔ سرحد اور بمبئی میں اس نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی تھی۔ پنجاب میں البتہ سر فضل حسین کی یونینسٹ پارٹی اور بنگال میں مولوی فضل الحق کی پرجا کرشک پارٹی کو جیت ہوئی تھی۔
غرض ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں سے کسی ایک صوبہ میں بھی مسلم لیگ کو اقتدار حاصل نہ ہوسکا تھا۔ ان حالات میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مسلم لیگ بر صغیر کے سیاسی دھارے سے الگ ہوتی جارہی ہے۔ اس دوران کانگریس نے جو پہلی بار اقتدار کے نشے میں کچھ زیادہ ہی سرشار تھی، ایسے اقدامات کیے جن سے مسلمانوں کے دلوں میں خدشات اور خطرات نے جنم لینا شروع کر دیا تھا۔ مثلاً کانگریس نے ہندی کو قومی زبان قرار دے دیا، گاؤ کشی پر پابندی عاید کر دی اور کانگریس کے ترنگے کو قومی پرچم کی حیثیت دے دی۔اس صوررت میں مسلم لیگ کی اقتدار سے محرومی کے ساتھ اس کی قیادت میں یہ احساس پیدا ہورہا تھا کہ مسلم لیگ اقتدار سے اس بنا پر محروم کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کہلاتی ہے۔ یہی نقطہ آغاز تھا مسلم لیگ کی قیادت میں دو جداقوموں کے احساس کی بیداری کا۔
اسی دوران دوسری عالم گیر جنگ کی حمایت کے عوض اقتدار کی بھر پور منتقلی کے مسئلے پر برطانوی راج اور کانگریس کے درمیان مناقشہ بھڑکا اور کانگریس اقتدار سے الگ ہوگئی تو مسلم لیگ کے لیے کچھہ دروازے کھلتے دکھائی دیے۔ اسی پس منظر میں لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ تین روزہ اجلاس بائیس مارچ کو شروع ہوا۔
اجلاس سے چار روز قبل لاہور میں علامہ مشرقی کی خاکسار جماعت نے پابندی توڑتے ہوئے ایک عسکری پریڈ کی تھی جس کو روکنے کے لیے پولس نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں پینتیس خاکسار جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس واقعہ کی وجہ سے لاہور میں سخت کشیدگی تھی اور اس بات کا خطرہ تھا کہ چوں کہ پنجاب میں مسلم لیگ کی اتحادی یونینسٹ پارٹی کی حکومت ہے کہیں خاکسار کے بیلچہ بردار کارکن، مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہ ہونے دیں یا اس موقع پر ہنگامہ برپا کریں۔ موقع کی نزاکت کے پیش نظر قائد اعظم محمد علی جناح نے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے پہلی بار کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے یعنی دو قوموں کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندووں اور مسلمانوں میں فرق اتنا واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھرپور ہوگا۔ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ ان کی علیحدہ مملکتیں ہوں۔
دوسرے دن ان ہی خطوط پر تیئس مارچ کو اس زمانہ کے بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل الحق نے قرارداد پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ اُس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے انہیں یک جا کر کے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلیٰ حاصل ہو۔
مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنما چودھری خلیق الزماں، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب، سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسی نے کی۔ قرارداد چوبیس مارچ کو اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔
اس قرار داد میں کہیں پاکستان کا ذکر نہیں تھا۔ دراصل ہندو اخبارات نے دوسرے روز جو خبریں شائع کیں ان میں اسے قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا۔ یہ نام درحقیقت انگلستان میں مقیم ایک وکیل چودھری رحمت علی نے برصغیر میں مسلم اکثریت والے علاقوں پر مشتمل ایک الگ مملکت کے قیام کے بارے میں اپنے منصوبہ میں تجویز کیا تھا۔
اس وقت تک مسلم لیگ نے اس نام کو قبول نہیں کیا تھا اور لاہور اجلاس میں مسلم لیگ کی قیادت کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ قراداد لاہور میں وہ مسلمانوں کے الگ وطن کے لیے جو مطالبہ کر رہے رہیں اس کا نام پاکستان ہوگا۔
یہ ستم ظریفی ہے کہ چودھری رحمت علی لاہور میں مسلم لیگ کے اس اجلاس میں شرکت کے لیے کیمبرج سے ہندوستان روانہ ہوئے تھے اور ابھی کراچی پہنچے تھے کہ انہیں لاہور جانے سے روک دیا گیا اور ملک بدر کر دیا گیا۔
قرارداد لاہور کا ایک اور اہم پہلو جس پر اب بھی بحث جاری ہے، وہ یہ ہے کہ اس میں واضح طور پر برصغیر میں دو مسلم مملکتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا، ایک شمال مغرب میں مسلم اکثریت والے علاقوں میں اور دوسری شمال مشرق کے مسلم اکشریت والے علاقوں میں۔ لیکن ان علاقوں کی واضح نشاندہی نہیں کی گئی تھی، غالباً یہی وجہ تھی کہ قرار داد لاہور میں پاکستان کے نام سے واحد مملکت کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا۔
پہلی بار پاکستان کے مطالبہ کے لیے علاقوں کی نشاندہی سات اپریل سن انیس سو چھیالیس کی دلی کی تین روزہ کنونشن میں کی گئی تھی جس میں مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے مسلم لیگی اراکین نے شرکت کی تھی۔ اس کنونشن میں برطانیہ سے آنے والے کیبنٹ مشن کے وفد کے سامنے مسلم لیگ کا مطالبہ پیش کرنے کے لیے ایک قرار داد منظور کی گئی تھی جس کا مسودہ مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے دو اراکین چودھری خلیق الزماں اور حسن اصفہانی نے تیار کیا تھا۔ اس قرارداد میں واضح طور پر پاکستان میں شامل کیے جانے والے علاقوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان۔ تعجب کی بات ہے کہ اس قرارداد میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں تھا حالاں کہ کشمیر شمال مغرب میں مسلم اکثریت والا علاقہ تھا اور پنجاب سے ملحق تھا۔ یہ بات بے حد اہم ہے کہ دلی کنونشن کی اس قرارداد میں دو مملکتوں کا ذکر یکسر حذف کردیا گیا تھا جو قرار داد لاہور میں بہت واضح طور پر تھا اس کی جگہ پاکستان کی واحد مملکت کا مطالبہ پیش کیا گیا تھا۔
غالباً بہت کم لوگوں کو اس کا علم ہے کہ قرارداد لاہور کا اصل مسودہ اس زمانہ کے پنجاب کے یونینسٹ وزیر اعلیٰ سر سکندر حیات خان نے تیار کیا تھا۔ یونینیسٹ پارٹی اس زمانے میں مسلم لیگ میں ضم ہوگئی تھی اور سر سکندر حیات خان پنجاب مسلم لیگ کے صدر تھے۔
نہ جانے کیوں بعض لوگ اس پر مصر ہیں کہ قرار داد لاہور کا مسودہ سر ظفر اللہ خان نے مرتب کیا تھا جو اس وقت وائسرائے کی کاونسل کے ممبر تھے اور وائسرائے کے ایما پر یہ مسودہ مرتب کیا تھا۔ اس دعویٰ کا کہیں کوئی ثبوت نہیں ہے۔
سر سکندر حیات خان نے قرارداد کے اصل مسودہ میں برصغیر میں ایک مرکزی حکومت کی بنیاد پر عملی طور پر کنفڈریشن کی تجویز پیش کی تھی لیکن جب اس مسودہ پر مسلم لیگ کی سبجیکٹ کمیٹی میں غور کیا گیا تھا تو قائد اعظم نے خود اس مسودہ میں واحد مرکزی حکومت کاذکر یکسر کاٹ دیا تھا۔
سر سکندر حیات خان اس بات پر سخت ناراض تھے اور انہوں نے گیارہ مارچ سن اکتالیس کو پنجاب اسمبلی کے ایوان میں صاف صاف کہا تھا کہ ان کا پاکستان کا نظریہ جناح صاحب کے نظریہ سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ وہ ہندوستان میں ایک طرف ہندو راج اور دوسری جانب مسلم راج کی بنیاد پر تقسیم کے سخت خلاف ہیں اور وہ ایسی بقول ان کے تباہ کن تقسیم کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
سرسکندر حیات خان دوسرے سال سن بیالیس میں پچاس سال کی عمر میں انتقال کر گئے یوں پنجاب میں قائد اعظم کو شدید مخالفت کے اٹھتے ہوئے حصار سے نجات مل گئی۔
سن چھیالیس کے دلی کنونشن میں پاکستان کے مطالبہ کی قرارداد حسین شہید سہروردی نے پیش کی تھی۔ قرار داد لاہور پیش کرنے والے مولوی فضل الحق اس کنونشن میں شریک نہیں ہوئے کیو ں کہ انہیں سن اکتالیس میں مسلم لیگ سے خارج کردیا گیا تھا۔
دلی کنونشن میں بنگال کے ممتاز رہنما ابوالہاشم نے اس قرارداد کی پر زور مخالفت کی تھی اور یہ دلیل پیش کی کہ یہ قرارداد لاہور کی قرارداد سے بالکل مختلف ہے جو مسلم لیگ کے آئین کا حصہ ہے۔ ان کا کہناتھا کہ قرارد دلاہور میں واضح طور پر دو مملکتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا لہٰذا دلی کنونشن کو مسلم لیگ کی اس بنیادی قرارداد میں ترمیم کا قطعی کوئی اختیار نہیں۔
ابو الہاشم کے مطابق قائد اعظم نے اسی کنونشن میں اور بعد میں بمبئی میں ایک ملاقات میں یہ وضاحت کی تھی کہ اس وقت چوں کہ بر صغیر میں دو الگ الگ دستور ساز اسمبلیوں کے قیام کی بات ہورہی ہے لہٰذا دلی کنونشن کی قرارداد میں ایک مملکت کا ذکر کیا گیا ہے۔ البتہ اس وقت جب پاکستان کی دستور ساز اسمبلی آئین مرتب کرے گی تووہ اس وقت اس مسئلہ کی حتمی ثالث ہوگی اور اسے دو علیحدہ مملکتوں کے قیام کا اختیار ہوگا۔
لیکن پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے نہ تو قائد اعظم کی زندگی میں اور نہ اس وقت جب سن چھپن میں ملک کا پہلا آئین منظور ہورہا تھا بر صغیر میں مسلمانوں کی دو آزاد اور خود مختار مملکتوں کے قیام پر غور کیا۔
پچیس سال کی سیاسی اتھل پتھل اور کشمکش اور سن اکہتر کی خونریزی اور بنگلا دیش کی جنگ کی تباہ کن قتل و غارت گری کے بعدالبتہ برصغیر میں مسلمانوں کی دو الگ الگ مملکتیں ابھریں جن کا مطالبہ اٹھتر سال قبل قرارداد لاہور میں کیا گیا تھا۔