حکم کی غلام افسر شاہی

214

سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے لاہور میں اپنے گھر کے باہر سڑک چوڑی کرنے کے لیے پارک پر قبضہ کر لیا اور اسے اکھاڑ پھینکا۔ یہ کام صرف کراچی ہی میں نہیں ہوتا با اثر افراد ایسا کہیں بھی کر سکتے ہیں۔ کراچی میں چائنا کٹنگ کے نام پر ایم کیو ایم اپنے اختیارات کا مظاہرہ کرتی رہی، پارکوں پر قبضہ کرکے وہاں اپنے دفاتر قائم کر دیے لیکن پیپلزپارٹی کے بڑوں نے بھی اپنے گھروں کے سامنے عوام کے لیے سڑکیں بند کر دیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے چنانچہ اس کے وزیرخزانہ نے بھی پارک کو اکھاڑ کر سڑک نکالنے کا سرکاری اختیار استعمال کیا۔ انہین اور ان کے ملنے والوں کو کم چوڑی سڑک سے آنے جانے میں شرمندگی ہوتی ہو گی۔ سامنے کا پارک بھلا کس کام کا چنانچہ اسے سڑک میں شامل کر لیا۔ لیکن ہوائیں بدل رہی ہیں۔ گزشتہ جمعرات کو عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے اسحاق ڈار اور ادارہ ترقیات لاہور (ایل ڈی اے) کو ہدایت جاری کی ہے کہ پارک کو 10 دن کے اندر اصل حالت میں لایا جائے اور اس کی تمام لاگت اسحاق ڈار یا ادارہ ترقیات کے ڈائرکٹر جنرل سے وصول کی جائے۔ اسحاق ڈار تو بیماری کی وجہ سے ملک سے باہر آرام فرما ہیں لیکن ان کے اثاثے تو ملک میں ہیں۔ ڈی جی صاحب تو کہیں گئے نہیں۔ اسحاق ڈار یقیناًحکمران لیگ کے بہت با اثر وزیر تھے جنہوں نے 5 بار ملک کا بجٹ پیش کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ ان کے پاس پارک کو بحال کرنے کا بجٹ بھی ہو گا۔ اس قبضہ گیری کی بنیادی ذمے داری ایل ڈی اے پر عائد ہوتی ہے کہ ایک وفاقی وزیر کی ’’چائنا کٹنگ‘‘ پر سندھ حکومت کی طرح آنکھیں بند رکھیں چنانچہ عدالت نے بجا طور پر حکم دیا ہے کہ ڈی جی صاحب معاوضہ ادا کریں۔ ان کے لیے یہ مشکل بھی نہیں ہو گا پوری لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی ان کے اختیار میں ہے۔ کسی بھی ٹھیکیدار کو پکڑ کر کام کروا سکتے ہیں اور وہ بخوشی کرے گا کہ اس طرح اس کے بھی کئی کام نکلیں گے۔ ڈائرکٹر جنرل زاہد اختر نے اس لاقانونیت کا عجیب عذر پیش کیا کہ اسحاق ڈار نے انہیں فون کرکے سڑک چوڑی کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ سیاسی لوگوں کے حکم کے غلام بن گئے ہیں۔ جیسے ہی وزیر کی زبان ہلتی ہے تو پارک اکھاڑ دیا جاتا ہے۔ آپ لوگ ملازمت بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے زاہد اختر کو انتباہ بھی کیا کہ وہ غلط بیانی نہ کریں، ان کے اعتراف کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ فل بینچ کا کہنا تھا کہ ڈائرکٹر جنرل ایل ڈی اے کے خلاف نیب کی دفعات کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس نے یہ تبصرہ بھی کیا کہ معاملہ نیب میں جاتا ہے تو سب ہڑتال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کا اشارہ احد چیمہ کی گرفتاری کی طرف تھا جس پر لاہور کے سرکاری ملازمین نے ہڑتال کر دی تھی۔ تحقیقات کے نتیجے میں احد چیمہ کے کئی کارنامے سامنے آ رہے ہیں جن پر ہڑتالی افسران کو شرمندگی ہونی چاہیے۔ بہرحال عدالت نے 10 دن کی مہلت دے دی ہے اور اگر عدلیہ توجہ نہ دیتی تو سب کچھ اسی طرح چلتا رہتا۔