عمران خان کا موازنہ

392

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خا ن کے تیور اور بیانات پل پل بدلتے رہتے ہیں۔ پہلے پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کو جی بھر کر کوسا اور پھر سینیٹ کی چیئرمین شپ کے لیے بالواسطہ تعاون کیا۔ ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کے مقابل آئے اورشکست کھائی۔ اب ان کا تازہ ارشاد ہے کہ ایک آمر پرویز مشرف کا دور حکومت اچھا تھا اور آصف زرداری حکومت کی کارکردگی نواز شریف کی حکومت سے بہتر تھی۔ نوازشریف نے وہ کچھ کیا جو آصف زرداری کے دور میں بھی نہیں ہوا۔ سول جمہوری حکومتوں کا موازنہ تو ہوتا ہی رہتا ہے اور اس ضمن میں ہر ایک اپنی رائے رکھتا ہے لیکن آئین کو پامال کر کے بغاوت کا ارتکاب کرنے والے کے دور حکومت کی تعریف کرنا بڑی ہمت کی بات ہے اور ایسے معاملات میں عمران خان کے حوصلوں کا جواب نہیں۔ وہ سیاست کو بھی کرکٹ کا کھیل سمجھتے ہیں اور ایک گیند میں تین تین وکٹیں اڑانے کے دعوے کرتے رہتے ہیں۔ ایک آمر جرنیل کی تعریف کرنا اس لیے بھی ان کا حق ہے کہ پرویز مشرف کے خود ساختہ ریفرنڈم میں عمران خان کا ووٹ بھی انہی کے حق میں پڑا تھا اور وہ پرویز مشرف کی حمایت کرتے رہے۔ پرویز مشرف خود بھی یہ دعوے کرتے تھے کہ سب سے اچھی جمہوریت انہوں نے ہی دی ہے۔ باوردی جمہوریت ایسی ہی ہے جیسے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر۔ آصف زرداری کی حکومت ممکن ہے نوازشریف سے بہتر رہی ہو لیکن نواز شریف پر کوئی بھی کک بیکس، بدعنوانی اور ہر معاملے میں رشوت وصول کرنے کا الزام نہیں لگا سکا۔ زرداری حکومت کیسے بہتر ہوسکتی ہے جس کے بارے میں عمران خان اٹھتے بیٹھتے لوٹ مار اور بیرون ملک بینکوں میں جمع دولت واپس لانے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ عمران خان نے نواز شریف یا ن لیگ حکومت پر جو الزامات عاید کیے ہیں ان میں بھی صداقت ہے مثلاً یہ کہ موجودہ حکومت نے ریکارڈ توڑ قرضے لیے، بجلی سمیت ہر شے پر عوام سے جگا ٹیکس وصول کیا جارہا ہے، عوام کی قوت خرید کم ہوگئی اور ٹیکس دہندگان کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ برآمدات کم ہونے کی وجہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ ماضی کی حکومتوں کو کوسنے کے بجائے حالات بہتر بنانے کا نسخہ کسی کے پاس نہیں ۔ عمران خان اگر اقتدار میں آبھی گئے تو کیا وہ معیشت کو سنبھالا دے سکیں گے؟ ابھی تو وہ خیبر پختونخوا میں ایک ارب پودے لگانے کا حساب ہی دے دیں۔