کشمیر کونسل اور وقت کا بہتا دھارا

339

نوآبادیاتی طرز فکر وعمل کی علامت کشمیر کونسل اب کشمیریوں کے اجتماعی ضمیر اور خود داری پر ایک ناروا بوجھ بن چکی ہے اسلام آباد کے پوش علاقوں میں کشمیر کے نام پر بیٹھے کونسل کے بزر جمہر خود کو ایسٹ انڈیا کمپنی اور دور پہاڑوں کی اوٹ میں بیٹھے کشمیریوں کو قدیم ہندوستان کی مخلوق سمجھ کر یک طرفہ فیصلے صادر کرتے اور برتاؤ کرتے ہیں۔ قانون ساز ادارے کے طور پر قائم ہونے والی کشمیر کونسل اب حکومت کے اندر حکومت نہیں بلکہ ’’سپر حکومت‘‘ کا روپ دھار چکی ہے۔ آزادکشمیر حکومت کے بیش تر اختیارات حیلوں بہانوں سے کونسل نے اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں اور آزادکشمیر کا حکمران اور قانون سازا دارے محض نمائشی کردار تک محدود ہو چکے ہیں۔ خدا خدا کرکے آزادکشمیر کے وزیر اعظم راجا فاروق حیدر خان نے وقت کے تالاب میں پہلا کنکر پھینکتے ہوئے آزادکشمیر کے آئین ایکٹ74 میں ترمیم کرنے اور کونسل کے خاتمے کا نعرہ مستانہ بلند کیا تو یوں لگا کہ ایک عام کشمیری شہری کے دلوں کے تار چھیڑ دیے گئے۔ سیاسی تخصیص اور وابستگی کے بغیر ہر جماعت اور طبقے نے اس آواز کے ساتھ اپنی آواز ملانے کا فیصلہ کیا اور اس طرح کشمیر کونسل کا خاتمہ اور ایک باوقار حکومت کا قیام ہر شخص کا مطالبہ بن گیا۔ سیاسی جماعتیں بھی رائے عامہ کے اس موڈ کو دیکھتے ہوئے کشمیر کونسل کے خاتمے کے نکتے پر اتفاق کرتی نظر آئیں۔ اچانک کسی غیر مرئی طاقت نے کشمیر کونسل کے ملازمین کی فوج ظفر موج کو متحرک کردیا اور وہ کونسل کے خاتمے کی مخالفت میں اپنی مراعات اور کر وفر کو بچانے کے لیے جلسے جلوس پر اُتر آئے۔ حالاں کہ آزادکشمیر کے بے سروساماں اور محدود وسائل کے حامل لوگوں نے اس فوج کو پالنے کا کوئی ٹھیکہ نہیں لیا تھا۔ اس کے بعد آزادکشمیر کی بعض سیاسی جماعتیں بھی ’’اگر مگر‘‘ کے ساتھ کشمیر کونسل کی حمایت میں اُتر آئی ہیں۔ ان میں وہ سیاسی جماعتیں بھی شامل تھیں جو آزادکشمیر میں انتظامی اختیار کی جدوجہد کرتی رہی ہیں اور وہ جماعتیں بھی شامل تھیں جو آزادکشمیر کے آئین میں ترمیم کے مسودے کی تیاری میں پیش پیش رہی ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان جماعتوں کو حالات کی مہربانی کی وجہ سے کونسل کی ایک ایک نشست مل گئی ہے اور اب ان کی سیاست کا محور آنے والی نسلیں نہیں بلکہ کشمیر کونسل کی ایک سیٹ ہے۔
معاملہ کشمیر کونسل کے خاتمے کا نہیں بلکہ اسے وسیع تناظر میں جانچنے اور دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اصل معاملہ عبوری ایکٹ میں ترامیم کا ہے جس کی بہت سی جہتیں ہیں۔ محض سیاسی کریڈٹ کی خاطر یا معاملے کے ڈاؤن پلے کے لیے اسے کونسل کے خاتمے یا برقرار رہنے تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اب بحث کونسل کے خاتمے تک سمٹ گئی ہے۔ حکومت اور اس کے اتحادی کونسل کے خاتمے کی بات کر رہے ہیں جب کہ کچھ جماعتیں کونسل کی بقا کی علم بردار بن کر میدان میں کود پڑی ہیں۔ اس سے کشمیری جماعتوں اور سیاست دانوں میں تقسیم کا تاثر اُبھر رہا ہے جو کسی طور بھی اچھا نہیں۔ اس سے کشمیری سیاست دانوں کا قد اونچا نہیں ہورہا اور یہ تاثر تقویت اختیار کر رہا ہے کہ آزادکشمیر کی سیاسی جماعتوں کی سیاست ہی کونسل کی ایک سیٹ کے گرد گھومتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف آزادکشمیر ہی نہیں گلگت بلتستان بھی اقتدار اور اختیار کی ایک اور جست لینے کو ہے۔ تاریخ کا پہیہ رواں ہے۔ یہ خطے کے مستقبل اور آنے والی نسلوں کا معاملہ ہے۔ جو لوگ فاروق حیدر کو اس کا کریڈٹ دینے کو تیار نہیں وہ تاریخ سے نابلد ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ فاروق حیدر ایک فرد ہیں اور قوموں کی زندگی میں افراد آتے اور اپنا متعین اور معین کام کر کے رخصت ہوتے ہیں۔ زندہ رہنے والی شے اقدار ہیں۔ روایات اور رواج ہیں، سر اُٹھا کر چلنے کی رسمیں ہیں، اپنے پیروں پر کھڑا رہنے کے انداز ہیں۔ وہ جو کسی معاشرے میں تشکیل پاتے ہیں۔
آزادکشمیر اور گلگت بلتستان اگر باوقار اور باختیار ہوں گے تو اس کا تعلق آنے والے دنوں اور نسلوں سے ہے۔ تاریخ میں ایسے مواقع کم آتے ہیں جب سیاسی قیادت اور معاشرے کو اپنے ذاتی مفاد اور سیاسی مصلحت سے اوپر اُٹھ کر فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ اگر یہ موقع گنوادیا جائے تو پھر دہائیوں تک اس لمحے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آج اختیار اور تبدیلی آزادکشمیر کے دروازے پر دستک دے رہی ہے تو اس لمحے کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ سیاسی لوگوں کو کسی مرحلے پر اختلاف کا تاثر نہیں دینا چاہیے اور تبدیلی کی دستک پر اپنا دروازۂ دل وذہن کھول کر اسے راہ دینی چاہیے۔