عدالتی مارشل لا، بے وقت کی راگنی

396

سیاست میں اپنی جگہ بنانے کے لیے ہاتھ پیر مارنے اور اس سے زیادہ زبان کا سہارا لینے والے شیخ رشید کے کسی بیان یا اظہار خیال کی ایسی اہمیت تو نہیں تھی کہ ہر ایک اس پر تبصرہ کرنے پر اترآیاہے، انہوں نے عدالتی (جوڈیشل) مارشل لا لگانے کی تجویزدی تھی بلکہ اپنی دلی خواہش کا اظہارکیاتھا۔ ان کو خوف ہے کہ عام انتخابات ہو گئے اور قدرے شفاف بھی ہو گئے تو نتائج ان کے لیے خوش کن نہیں ہونگے اور انہوں نے جس گھوڑے پر داؤ لگایا ہے وہ پھسڈی نکلے گا۔ شیخ رشید کی بات کو اہمیت دینے کی ضرورت نہیں تھی لیکن وزیر اعظم ہوںیا عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس اور کچھ سیاستدان، سب اس پر ردعمل دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ جوڈیشل مارشل لا کی گنجائش ہے نہ جمہوریت پٹڑی سے اترنے دیں گے۔ گوکہ حزب اختلاف کی جماعتیں تو کہتی ہیں کہ ابھی جمہویت پٹڑی پر چڑھی کہاں ہے۔ چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں صرف قانون کی حکمرانی ہوگی، آئین سے ماورا کوئی اقدام برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے اعتماد سے کہا کہ میرے ہوتے ہوئے کوئی مارشل لا نہیں ، مارشل لا عدلیہ لگائے یا کوئی اور آئین میں اس کی گنجائش ہے نہ ہم اجازت دیں گے، قسم کھاتاہوں جمہویت کوکو ئی نقصان نہیں ۔ چیف جسٹس صاحب قسمیں زیادہ کھانے لگے ہیں اور جہاں تک آئین میں گنجائش کا تعلق ہے تو انہیں خوب معلوم ہے کہ عدالتوں اورآئین کے ہوتے ہوئے پاکستان میں کئی بار مارشل لا لگ چکے ہیں اور عدالتوں نے ان کوتحفظ فراہم کیاہے۔ نظریہ ضرورت کا راستہ بھی اس وقت کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس منیر نے کھولا تھا اور پھر عدلیہ کو بار بار کہنا پڑا کہ نظر یہ ضرورت دفن کردیاگیاہے۔ لیکن یہ کچھ زیادہ گہرا دفن نہیں ہوا ۔عدلیہ اور آئین کے ہوتے ہوئے جنرل ضیاالحق نے مارشل لا لگاکر کہا کہ آئین کیا ہے، کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے،اسے طاق پر رکھ دیاجائے۔ اور پھر وہ بھی ایوب خان کی طرح دس سال حکومت کر گئے۔ ان کے جانے پرخیال ظاہر کیاگیا کہ اب مارشل لا نہیں لگے گا لیکن پھر جنرل پرویز مشرف چھڑی گھماتے ہوئے تشریف لے آئے، پاکستان کی عدالت عظمیٰ ہی نے ان کے اقدامات کو تین سال کا آئینی تحفظ فراہم کیاتھا۔ا نہی کے دور میں ان کے عبوری آئینی حکم(پی سی او) پر بہت سے ججوں نے حلف اٹھائے تھے جو بعد میں بھی عدلیہ کا حصہ رہے۔ خدا کرے محترم چیف جسٹس ثاقب نثار جس عزم کا اظہار کررہے ہیں ایساہی ہو۔ لیکن پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کوئی باوردی طالع آزما پٹڑی سے اترتا ہے تو آئین اور عدالتیں سب بے بس ہوکر منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں اور جمہویت کی ٹرین پٹڑی سے ایسے اترتی ہے کہ اس کو دوبارہ چڑھانے میں کئی برس لگ جاتے ہیں۔ اگر عدالتیں بے خوف وخطر کام کرتی رہیں تو مارشل لا کے امکانات کم سے کم ہوجاتے ہیں۔ لیکن ماضی کو دیکھتے ہوئے خطر ہ منڈلاتاہی رہتا ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی شیخ رشید کے بیان کو اہمیت دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی مارشل لا کے خواہش مندوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مارشل لا کی ہر شکل مسترد کرتے ہیں۔ کسی کے الٹے سیدھے بیان پر رد عمل دینا بھی اسے اہمیت دینے کے مترادف ہے۔