پی ایس ایل آگیا…… کراچی بند

275

کراچی کنگز تو پی ایس ایل کے فائنل میں نہیں پہنچ سکی لیکن کراچی پی ایس ایل میں آگیا یا پی ایس ایل کراچی آگیا۔ لیکن پی ایس ایل کیا آیا کراچی بند ہوگیا۔ پورا میڈیا چیخ رہا ہے کہ یہ بڑی کامیابی ہے۔ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ آگئی ہے۔ بہت خوب۔۔۔ اخبارات اور ٹی وی تو یہی بتارہے ہیں کہ کراچی نے پی ایس ایل کا بھرپور استقبال کیا ہے۔ ہر طرف کھلاڑیوں کے کٹ آؤٹ ہیں، روشن رنگین لڑیاں ہیں اور زبردست گہماگہمی ہے۔ 26 تاریخ کے اخبارات بھی یہی بتائیں گے کرکٹ جیت گئی دہشت گردی ہار گئی۔ لیکن جوتے کے اندر جو پاؤں ہوتا ہے نئے یا پرانے جوتے کے مسائل سے وہی واقف ہوتا ہے۔ میڈیا کی تو آپ سنیں اور سنتے ہی رہیں۔ ذرا اہل کراچی کی بھی سن لیں۔ ابھی پی ایس ایل بہت دور تھا لیکن نیشنل اسٹیڈیم، کارساز روڈ، اسٹیڈیم روڈ، آغا خان، مڈسٹی، ہسپتال، این آئی بی ڈی تا حسن اسکوائر بند کردیا گیا۔ تین چار گھنٹے یہ علاقے بند کرکے پولیس اسپیشل سیکورٹی یونٹ اور دیگر اداروں نے گشت کیا۔ شام کو خبر جاری کردی گئی کہ راستہ کھول دیا گیا ہے۔ ان تین چار گھنٹوں میں کیا کچھ گزر گیا کسی کو نہیں پتا کیوں کہ پریس ریلیز میں لکھا تھا پی ایس ایل فائنل کی سیکورٹی کی ریہرسل کی گئی اور تھوڑی دیر ٹریفک بند کرکے راستے کھول دیے گئے۔ اس روز ہم اس ریلے میں پھنس گئے تھے اور اندازہ ہوگیا تھا کہ 23 تا 25 مارچ کیا ہوگا۔ 24 کو تو چھٹی ہے لیکن 25 کو آفس کیسے پہنچیں گے۔ جائیں یا نہ جائیں۔ لیکن یہ صرف ہمارا مسئلہ تو نہیں فائنل کی تاریخ 25 مارچ اور تیاریاں اس سے کہیں پہلے سے۔ ایسا تو ہوتا ہے لیکن یہ کیسی تفریح ہے جس کے نتیجے میں چند ہزار لوگوں کو تو تفریح مل جائے گی لیکن بلا مبالغہ تیس چالیس لاکھ لوگ براہ راست متاثر ہوں گے۔ کاروبار کا جو نقصان ہوا وہ الگ ہے، کرکٹ کا کاروبار تو چل گیا۔
اب کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ کھیل کے دشمن ہیں۔ کرکٹ پاکستان آرہی ہے بڑی کامیابی ہے اور یہ صاحب اس کے خلاف لکھ رہے ہیں۔ تو دیکھیں تیس چالیس لاکھ لوگ کیونکر متاثر ہوں گے۔ لیاقت آباد، ناظم آباد، اورنگی اور سائٹ وغیرہ سے ائر پورٹ، شاہ فیصل، ملیر وغیرہ کو ملانے والی سڑکیں حسن اسکوائر یا نیپا سے گزرتی ہیں۔ کچھ مختلف علاقوں سے گزرتی ہوئی ان ہی چوراہوں تک پہنچتی ہیں۔ حسن اسکوائر سے آگے راستہ بند ہوگا یہ لوگ نیپا کی طرف مڑیں گے یا پہلے ہی سے اس جانب جائیں گے اور نیپا کے پل پر رش ہوگا۔ جو لوگ جوہر، موسمیات وغیرہ سے حسن اسکوائر عبور کرکے سبزی منڈی، صدر یا ٹاور کی طرف جانا چاہتے ہیں ان کو اس لیے مشکل ہوگی کہ راستے میں کھلاڑیوں کے کٹ آؤٹ لگے ہیں، لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہو کر سیلفیاں بنا رہے ہیں۔ دوسری طرف کا رش پارکنگ وغیرہ الگ مسائل ہیں۔ نہایت سست رفتار ٹریفک دس پندرہ منٹ کا راستہ ایک گھنٹے سے کم میں طے نہیں ہوگا۔ لاکھوں کروڑوں کا ایندھن ضائع ہوگا۔ نیشنل اسٹیڈیم کے بالکل عقب میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز این آئی بی ڈی ہے، یہاں ہر لمحے خون لینے اور دینے والے آتے ہیں، کراچی کے بہت سے ہسپتالوں میں زیر علاج جاں بلب مریضوں کے لیے تیز رفتاری سے گاڑیاں موٹر سائیکلیں ایمبولینسیں دوڑتی ہیں اور خون مہیا کیا جاتا ہے۔ دو دن تک خون کی سپلائی بند۔ اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اس ہسپتال میں زیر علاج مریضوں اور ان کی دیکھ بھال کرنے والوں کا کیا ہوگا۔ جمعرات کو فائنل سے تین دن قبل لیاقت نیشنل اور آغا خان آنے جانے پر پابندی لگ گئی۔ کئی گھنٹے بعد پتا چلا کہ ریہرسل تھی۔ مریضوں کو لے جانے اور ان سے ملنے والوں کے علاوہ ڈاکٹروں کو بھی شدید تکلیف ہوئی۔ دو دن کے لیے کیا آغا خان اور لیاقت نیشنل کے لیے کوئی متبادل انتظام کیا گیا۔ یہ ہوسکتا تھا، لیکن پی ایس ایل کے کروڑوں یا اربوں روپے میں سے نہیں۔ آغا خان اور لیاقت ہسپتال مل کر یہ کام کرسکتے تھے چند ہزار روپے میں لیکن وہ کیوں کریں۔
حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ کنٹینرز لگا کر سڑکیں بند کریں گے لیکن اس کی جگہ ٹینکر بھی پکڑ لیے گئے ہیں جو کراچی میں پانی کی فراہمی میں مصروف تھے۔ اب پانی کی فراہمی بھی مشکل ہوگئی، راستے ویسے ہی بند تھے ٹینکر بھی بند ہوگئے۔ یہ سب کچھ کس کے لیے ہورہا ہے۔ بین الاقوامی کرکٹ پاکستان لانے اور 34 ہزار تماشائیوں کے لیے یا ان چند کروڑوں روپوں کے لیے جو اشتہارات کی مد میں ملنے کی توقع تھی، یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ایسے کام ہونے چاہئیں۔ بین الاقوامی کرکٹ پاکستان میں ہونی چاہیے لیکن اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ گویا آنے والے دنوں میں جب ویسٹ انڈیز کی ٹیم کھیل رہی ہوگی تو پھر اہل کراچی بند ہوں گے۔ جس طرح بین الاقوامی نمائشوں کے لیے اب ایکسپو سینٹر مناسب نہیں ہے کیوں کہ حکومت ایکسپو کے اندر موجود وسیع پارکنگ میں لوگوں کو داخل نہیں ہونے دیتی۔ یہاں امتحانات بھی کرائے جاتے ہیں تو معزز شہری بھکاریوں کی طرح ایکسپو کے دروازوں سے چپکے کھڑے ہوتے ہیں، ان کی گاڑیاں بھی باہر ہی ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں ٹریفک جام ہوتا ہے۔ جب اربوں روپے کا کھیل ہے اور طویل المدت منصوبہ بھی تو شہر سے دور وسیع قطعات لے کر بڑا اسٹیڈیم بنایا جائے جہاں ایسے کھیل ہوسکیں۔ ملک ریاض کو تو 12 ہزار کی جگہ دس گنا زیادہ زمین لٹا دی جاتی ہے صرف کمرشل مقاصد کے لیے لیکن پاکستان میں کرکٹ واپس لانے کے بڑے مقصد کے لیے عوام کو بند کرنا کہاں کی کامیابی ہے۔ اس طرح کا پی ایس ایل تو شام اور یمن میں بھی کرایا جاسکتا ہے۔ سب کو بند کرکے غوطہ میں فائنل کرالو۔