سرسید اور ان کا تصور علم و تصور تعلیم

584

اسلامی تہذیب میں علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں ایمان کے بعد جس تصور پر سب سے زیادہ اصرار کیا گیا ہے وہ علم ہے۔ قرآن میں کہا گیا ہے کہ تم توبہ سے کام کیوں نہیں لیتے۔ قرآن صاف کہتا ہے کہ علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ اہل دنیا کا ورثہ مال اور انبیا کا ورثہ علم ہے۔ لیکن اسلام صرف علم کی اہمیت بیان کرکے نہیں رہ جاتا بلکہ وہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ مسلمان کے لیے علم وحی سے برتر علم کا تصور محال ہے۔ اما م غزالی نے یونانی فکر کو جن بنیادوں پر مسترد کیا ہے ان میں سے ایک بنیاد یہ بھی تھی کہ یونانی فکر کے زیر اثر بہت سے مسلم فلسفی علم وحی کی فوقیت کے منکر ہوگئے تھے۔ یونانی فکر اور اس کا تصور علم عام ہوجاتا تو اسلام کا بھی خدانخواستہ وہی حشر ہوتا جو مغربی دنیا میں عیسائیت کا ہوا۔ سرسید کے زمانے میں مغرب کا تصور علم، تصور تعلیم اور مغرب کے علوم کی مذہب بیزاری ایک بار پھر مسلمانوں پر حملہ آور ہوئی۔ برصغیر کے تین عبقریوں یا geniuses نے مغربی علوم کی تباہ کاریوں پر اس طرح تبصرہ کیا ہے۔ اکبر الٰہ آبادی نے کہا ؂
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اقبال نے اس سلسلے میں رائے دیتے ہوئے کہا ؂
دانش حاضر حسبی اگبراست
بت پرست بت فروش و بت گراست
***
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہوجائے اگر موم تو چاہے جدھر پھیر
سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ایک جگہ صاف کہا کہ ہمارے جدید تعلیمی ادارے نئی نسل کی قتل گاہیں ہیں۔ اکبر، اقبال اور مولانا مودودی کی یہ آرا خیالی پلاؤ نہیں ایک معروضی حقیقت تھیں۔ خود سرسید نے اپنی تحریر میں ڈاکٹر ہنٹر کا ایک قول نقل کیا ہے۔ ڈاکٹر ہنٹر نے لکھا۔
’’کوئی نوجوان، خواہ ہندو خواہ مسلمان ایسا نہیں ہے جو ہمارے انگریزی مدرسوں میں تعلیم پائے اور اپنے بزرگوں کے مذہب سے بداعتقاد ہونا نہ سیکھے۔ ایشیا کے شاداب اور تروتازہ مذہب جب مغربی علوم کی سچائی کے قریب آتے ہیں، جو مثل برف کے ہے، تو سوکھ کر لکڑی ہوجاتے ہیں‘‘۔
(افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 221)۔
سرسید نے ڈاکٹر ہنٹر کا یہ اقتباس پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ڈاکٹر ہنٹر نے جو کہا ہے سچ کہا ہے۔ اس کے باوجود سرسید نے اپنے کالج میں مغرب کے رہنما علوم کی تعلیم و ترویج کا ’’اہتمام‘‘ کیا۔ بلاشبہ انسان دھوکے سے زہر کھا کر خود کو ہلاک کرلیتا ہے مگر سرسید دھوکے سے نہیں پورے شعور کے ساتھ مسلمانوں کو وہ زہر کھلاتے رہے جو مسلمانوں کی ’’روحانی موت‘‘ کا سبب بن رہا تھا اور ڈاکٹر ہنٹر خود اس کی گواہی دے رہا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سرسید مذہب، مذہب خواہ کتنا ہی کیوں نہ کررہے ہوں مگر ان کی نظر میں اصل اہمیت ’’دنیا‘‘ کی تھی ’’مذہب‘‘ کی نہیں۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کی ’’بقا‘‘ دنیا کمانے میں ہے مذہب کو ’’بچانے‘‘ میں نہیں۔ مذہب سرسید کی ترجیح اول ہوتا تو وہ یا تو ایسے جدید علوم کی تعلیم لینے سے گریز کرتے جو مذہب کو کھا جانے والے تھے یا کم از کم وہ ان غلام کی ایسی تنقید ہی پیدا کرنے کی کوشش کرتے جس سے ان علوم و فنون کی ’’ہلاکت آفرینی‘‘ کم ہوجاتی اور مسلمانوں میں ان کے خلاف ایک ’’مزاحمتی رویہ‘‘ پیدا ہوجاتا۔ دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم قاری طیب نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ہمارے علاقے میں بندروں کی کثرت ہوگئی اور بندروں نے جینا حرام کردیا تو ہم نے بندروں سے نجات کے لیے آٹے میں زہر ملا کر روٹیاں پکوائیں اور انہیں گھر کی چھت پر بکھیر دیا۔ تھوڑی دیر میں بندروں کا ایک غول آیا۔ بندروں نے روٹیوں کو سونگھا اور واپس چلے گئے۔ قاری طیب نے قیاس کیا کہ ہماری محنت اکارت گئی۔ قاری طیب کے بقول بندروں کا غول تھوڑی دیر کے بعد لوٹا۔ اب ہر بندر کے ہاتھ میں ایک پودا تھا۔ قاری طیب کے بقول بندروں نے پہلے روٹیاں کھائیں اور پھر اپنے ساتھ لایا ہوا پودا کھالیا۔ اس پودے میں زہر کا تریاق تھا۔ بندروں کو روٹیوں میں موجود زہر کا توڑ معلوم تھا مگر سرسید مغربی علوم کے زہر سے آگاہ ہونے کے باوجود اس کے توڑ سے ناواقف تھے۔ سرسید ساری زندگی ’’تخلیق تخلیق‘‘ کا شعور مچاتے رہے مگر ان کا ذہن مغرب کے حوالے سے ’’تقلیدی‘‘ تھا۔ مغرب کے سلسلے میں ان کا ذہن تخلیقی ہوتا تو برصغیر کے کروڑوں مسلمان جدید مغربی علوم و فنون کا زہر کھا کر لامذہب یا سیکولر نہ ہوتے۔ سرسید مغرب کے علوم و فنون کی تنقید پیدا کرتے اور اپنی قوم کو مغربی فکر کے زہر سے بچالیتے۔
سرسید کا مسئلہ صرف یہ نہیں تھا کہ وہ برصغیر کے مسلمانوں کو جدید علوم سے آراستہ کرنا چاہتے تھے بلکہ ان کا مسئلہ یہ بھی تھا کہ جن علوم کا زہر ہونا معلوم حقیقت تھا وہ ان علوم سے اتنے مرعوب تھے کہ ان کے سامنے مشرقی علوم انہیں حقیر نظر آتے تھے۔ چناں چہ انہوں نے لکھا۔
’’ہمارے ملک کو ہماری قوم کو اگر درحقیقت ترقی کرنی اور فی الواقع ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کا سچا خیر خواہ اور وفادار رعیت بننا ہے تو اس کے لیے بجز اس کے اور کوئی راہ نہیں ہے کہ وہ علوم مغربی و زبان مغربی میں اعلیٰ درجے کی ترقی کرے‘‘۔
ایک اور جگہ سرسید نے تحریر فرمایا ۔
’’جو شخص اپنی قومی ہمدردی سے اور دور اندیش عقل سے غور کرے گا وہ جانے گا کہ ہندوستان کی ترقی کیا علمی اور کیا اخلاقی صرف مغربی علوم میں اعلیٰ ترقی حاصل کرنے پر منحصر ہے‘‘۔
(افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 206-207)
سرسید کے ان اقتباسات کو دیکھا جائے تو انہیں ایک جانب ’’ترقی‘‘ کی فکر ہے مگر ترقی کے ساتھ ساتھ انہیں یہ خیال بھی دامن گیر ہے کہ کہیں ہم ترقی کرکے انگریزوں کے مقابل ہی نہ کھڑے ہوجائیں۔ چناں چہ وہ ’’اپنی قوم‘‘ کو یہ یاد دلانا نہیں بھولتے کہ مغربی علوم پڑھو مگر ملکہ برطانیہ کے ’’خیرخواہ‘‘ اور ’’وفادار‘‘ بن کر رہو۔ اس طرح سرسید کا نعرہ یہ تھا۔
’’ترقی، کامل غلامی کے ساتھ‘‘
سوال یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کو ’’ترقی‘‘ کے بعد بھی ’’غلامی‘‘ ہی کرنی تھی تو پھر اس ترقی کی ضرورت ہی کیا تھی۔ انسان کا ’’شرف‘‘ مادی ترقی نہیں ’’آزادی‘‘ ہے۔ آدمی غریب ہو مگر آزاد ہو بجائے اس کے ’’مالدار‘‘ ہونے کے باوجود ’’غلام‘‘ ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ جدید علوم پڑھا کر بھی سرسید مسلمانوں کو ’’گنگو تیلی‘‘ ہی دیکھنا چاہتے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ سرسید کو جدید علوم میں صرف مسلمانوں کی مادی ترقی ہی نہیں ’’اخلاقی ترقی‘‘ بھی نظر آتی تھی۔ حالاں کہ جدید مغربی علوم کا اخلاقیات سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اس کا ثبوت خود سرسید کو اپنی زندگی ہی میں مل گیا۔ چناں چہ انہوں نے اپنی تحریروں میں شکایت کی ہے کہ جدید تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان ماں باپ اور بزرگوں کے ادب سے بے نیاز ہو گئے ہیں۔ ان میں لامذہبیت پھیل رہی ہے۔ یہاں تک کہ سرسید نے جدید تعلیم یافتہ افراد کو ’’شیطان‘‘ قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں۔
’’تعجب ہے کہ جو (جدید) تعلیم پاتے جاتے ہیں اور جن سے قومی بھلائی کی امید تھی وہ خود شیطان اور بدترین قوم ہوتے جاتے ہیں۔ جس کو نہایت سعادت مند سمجھو اخیر وہ شیطان معلوم ہوتا ہے‘‘۔
(افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 220-221-222)
مزے کی بات یہ ہے کہ سرسید ایک جانب جدید مغربی علوم کے اثرات کا رونا رو رہے تھے اور دوسری جانب انہی علوم کو فروغ دینے میں لگے ہوئے تھے اور ان سے ’’اخلاقی ترقی‘‘ کا تصور تک وابستہ کیے ہوئے تھے۔ لیکن یہاں سوال تو یہ بھی ہے کہ سرسید نے مشرقی علوم کے بارے میں کیا فرمایا، لکھتے ہیں۔
’’کیا ہندوستان کی ترقی مشرقی علوم کی ترقی سے ہوسکتی ہے ہرگز نہیں۔۔۔ علوم مشرقی کی ترقی اور چھوٹی موٹی ترجمہ کی ہوئی کتابیں ہم کو کیا نتیجہ دیں گی اور ہم کو کون سی عزت و دولت، حکومت و حشمت بخشیں گی‘‘۔
انہوں نے مزید فرمایا۔
’’مردہ علوم مشرقی اور مشرقی زبانوں کو زندہ کرنے کی فکر میں پڑنا ہمارے لیے، ملک کے لیے بلکہ گورنمنٹ کے لیے کچھ بھلائی نہیں‘‘۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوا۔
’’وہ لوگ یاسبب مقدس مولویوں کے جوان مدرسوں میں مصروف ہیں اور ان کی قدوسیت کا خیال لوگوں کے دلوں میں جما ہوا ہے اور نیز اس خیال سے کہ مذہبی کتابوں اور قرآن و حدیث اور عربی پڑھانے روپیہ، روٹی، اناج، بھُس دینے میں بڑا ثواب ہوگا۔ ان مدرسوں میں روپیہ دیتے ہیں اور مدد کرتے ہیں۔ یہ کرنا کچھ کرنے میں داخل نہیں ہے اور اس سے قومی عزت حاصل نہیں ہوتی‘‘۔
(افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 206-208-209)
آپ نے دیکھا سرسید مشرقی علوم کی تعلیم کے سخت خلاف تھے۔ حالاں کہ ان میں سرسید کے بقول قرآن و حدیث کا علم بھی شامل تھا مگر سرسید کا خیال تھا کہ قرآن و حدیث کے علم سے بھی ’’قومی عزت‘‘ حاصل نہیں ہوسکتی۔ ظاہر ہے کہ ’’قومی عزت‘‘ انگریزوں کے ہاتھ میں تھی اور انگریزوں کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ سرسید کی نظر میں ’’دنیا کمانے‘‘ والے ’’جدید مغربی علوم‘‘ کی اہمیت قرآن و حدیث کے علم سے بھی زیادہ تھی۔ ظاہر ہے کہ اگر سرسید کی نظر میں قرآن حدیث کی یہ ’’وقعت‘‘ تھی تو دیگر مشرقی علوم کی ان کی نگاہ میں کیا ’’اوقات‘‘ ہوگی۔ آئیے بچپن سے رٹے رٹائے جملوں کی ’’جگالی‘‘ کریں۔ سرسید ’’عظیم تھے۔ سرسید برصغیر کے مسلمانوں کے ’’محسن‘‘ تھے۔ سرسید مسلمانوں کے ’’ہمدرد‘‘ تھے۔
تعلیم قدیم ہو یا جدید مخصوص معنوں میں انسان کو ’’آزاد‘‘ کرتی ہے۔ تعلیم بالخصوص جدید تعلیم انسان میں حقوق کا شعور اور اس کے لیے احتجاج کا ’’کلچر‘‘ پیدا کرتی ہے۔ جدید مغرب کی تاریخ ان دونوں باتوں کا ٹھوس ثبوت ہے۔ سرسید یہ تو چاہتے تھے کہ برصغیر کے لوگ جدید علوم پڑھیں مگر مزے کی بات یہ ہے کہ وہ یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ جدید تعلیم سے انسان خود کو آزاد محسوس کرے اور حکومت برطانیہ کے خلاف احتجاج کی کوئی صورت پیدا ہو۔ چناں چہ انہوں نے لکھا۔
’’ جہاں کسی نے کوئی ڈگری یونیورسٹی سے پائی اس نے سمجھ لیا کہ اب میں بہت بڑا عالم ہوگیا۔ ناواجب آزادی کو وہ اپنا ایمان بناتا ہے اور سمجھتا بھی نہیں کہ آزادی کیا چیز ہے۔۔۔ پہلے تو انہوں نے اپنے تئیں اعلیٰ درجے کا تعلیم یافتہ اور اعلیٰ درجے کا اسٹیٹسمین(statsman) یعنی مدبر امور سلطنت سمجھ لیا۔ پھر اس بات کے درپے ہوئے کہ انگلش گورنمنٹ جس طرح کہ یورپ میں حکومت کرتی ہے اس طرح ہندوستان میں حکومت کرے اور گورے کالے اور فاتح و مفتوح میں کوئی فرق نہ سمجھے۔ پھر انہوں نے ایک لفظ ایجی ٹیشن (Agitation) کا سیکھا اور کہا کہ دیکھو، آئرلینڈ والے کیا ایجی ٹیشن گورنمنٹ کی تجویزوں پر کرتے ہیں‘‘۔
(افکار سرسید۔ ازضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 218-219)
سرسید کی تحریروں سے لیے گئے ان اقتباسات کو دیکھا جائے تو سرسید برصغیر کے مسلمان سے کہہ رہے ہیں کہ جدید علوم حاصل کرو، جدید بنو مگر اس کے نتیجے میں خود کو ’’آزاد‘‘ سمجھنا شروع نہ کرو۔ مزید یہ کہ یہ خیال دل میں نہ لاؤ کہ انگریزوں کو گوروں اور کالوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا چاہیے۔ سرسید کا مشورہ یہ ہے کہ برصغیر کے لوگوں کو یورپ کے باشندوں کی طرح بات بات پر احتجاج بھی نہیں کرنا چاہیے۔ آپ نے دیکھا یہ ہے سرسید کی وہ مشہور زمانہ ’’جدیدیت‘‘ اور ’’روشن خیالی‘‘ جس کا چار دانگ عالم میں چرچا ہے۔ جس کی بنا پر سلیم احمد سرسید کو ’’بابائے‘‘ جدیدیت کہا کرتے تھے۔ خدا مسلمانوں ہی کو نہیں کافروں کو بھی ایسی جدیدیت، ایسی روشن خیالی اور ایسے جدید علوم سے بچائے جو انسان کو دائمی غلامی کے سوا کچھ نہ سکھاتی ہو۔