جب جنرل ضیا الحق اقوام متحدہ کے اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران فلسطینی مزاحمتی تحریک پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات سے مخاطب ہو کر کہہ رہے تھے کہ اے ابوعمار تمہیں کس نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ تمہارے ساتھی کیوں پریشان حال ہیں۔ فلسطینیوں کو دربدر کس نے کیا۔ یہ باتیں سن کر اس وقت بہت غصہ آیا تھا کہ فلسطینیوں پر اردن کی سرحد سے نکل کر آپریشن کرنے والا کوئی اور نہیں بریگیڈیئر ضیا الحق تھا۔ اور 20 سال بعد یاسر عرفات سے وہی بریگیڈیئر جو جنرل بن چکا تھا پوچھ رہا تھا کہ فلسطینیوں کو دربدر کس نے کیا۔ لیکن اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ سب نے یہی سیکھ لیا ہے۔ ایک روز شہباز شریف کہہ رہے تھے کہ اقتدار ملا تو پورے پنجاب میں ترقیاتی کام کراؤں گا۔ 32 سال سے تو شاید پیپلز پارٹی برسراقتدار تھی۔ جو فرما رہے ہیں کہ اب اقتدار ملا تو یہ کردیں گے، وہ کردیں گے۔ ان ہی کے بھیا میاں نواز شریف عدالت زدہ ہیں، فرماتے ہیں کہ عوام کی توہین ہوئی ہے، درخواست کہاں دائر کریں، میرے خلاف بلیک لا ڈکشنری کا سہارا لے کر فیصلہ لکھا گیا ہے۔ جسٹس صاحب نے اعتراف کیا کہ مقدمہ پاناما کا تھا فیصلہ اقامہ پر ہوا۔ عمران خان کو اقبال جرم پر بھی معاف کردیا گیا۔ میاں نواز شریف صاحب آپ کو انتخاب جیتنے پر نااہل قرار نہیں دیا گیا ہے بلکہ غلط بیانی کے الزام میں فیصلہ آیا ہے۔ عوام کی توہین تو یہ ہے کہ آپ نے وعدہ کیا تھا کشکول رکھ دیں گے۔ لیکن پہلے سے بڑا کشکول پکڑا کر خود معزول ہوگئے۔ اس سے عوام کی توہین نہیں ہوئی؟؟۔ وزیراعظم بننے سے قبل میاں نواز شریف کے بڑے بڑے وعدوں میں کشمیر آزاد کرانا، عافیہ کو لانا، روزگار، بجلی، ایٹمی پروگرام کا تحفظ قومی وقار کی بحالی وغیرہ تھے۔ ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔ عوام کی توہین نہیں ہوئی۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا رہے ہیں ذرا ووٹر کو بھی عزت دے دیں۔ ن لیگ پنجاب میں 32 سال سے حکمران ہے، میاں نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم بنے، پارٹی اب بھی اقتدار میں ہے اور وعدے ایسے کیے جارہے ہیں جیسے نئی پارٹی سیاست میں آئی ہے۔
اب غصہ نہیں آتا….. کیوں کہ ہماری یادداشت کے مطابق شاید جنرل ضیا پہلے آدمی تھے لیکن اب تو ہر بندہ یہی کر رہا ہے۔ یہ تو سیاست دان ہیں اور ترقی وغیرہ کے سیاسی نعروں سے کھیل رہے ہیں جن ظالموں نے کراچی میں 35 برس سے آگ و خون کا کھیل شروع کر رکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ کراچی کو خون میں نہلانے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ جن لوگوں نے بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں 260 افراد کو جلا ڈالا وہ کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد کراچی کا امن ہے۔ مہاجر ہماری جان ہیں، کراچی میں بھتا، بوری بند لاشیں، ٹھپا مافیا، الیکشن لوٹنا موبائل لوٹنا متعارف کرائے اور تین عشروں تک یہ کام کرنے والے کہتے ہیں کہ کراچی کی رونقیں لوٹائیں گے۔ کراچی کو لُٹانے والے رونقیں کیونکر لوٹائیں گے۔ اگر نواز شریف کے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ والے جملے کو الگ بھی کردیں تو یہ سارے سیاستدانوں درحقیقت کہتے یہی ہیں کہ مجھے کیوں نکالا۔ جو کام میئر کراچی کرسکتے ہیں اس کے لیے اختیار مانگ رہے ہیں۔ جو نہیں کرسکتے اس کے لیے پیسے مانگ رہے ہیں اور جو کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے خاموشی مانگ رہے ہیں، کوئی کچھ نہ بولے۔ کراچی لٹ گیا، فاروق ستار 50 ارکان صوبائی اسمبلی کو اپنے پروں میں دبائے بیٹھے رہے۔ 25 ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز بھی کسی ڈربے میں بند تھے۔ سندھ حکومت کا مرغا سب کچھ کٹ کٹ کرکے کھا گیا۔ اب 2018ء کے انتخابات میں یہ ڈربوں سے باہر نکل کر کہیں گے کہ کراچی کا تحفظ ہم کریں گے اور میڈیا ان کے ساتھ بلکہ پیچھے ہوگا۔
30 سال سے زیادہ کراچی و حیدر آباد پر بلاشرکت غیرے حکومت کرنے والے فاروق ستار، مصطفی کمال، وسیم اختر، عامر خان، انیس قائم خانی وغیرہ انتخابات میں کراچی و حیدر آباد اور مہاجروں کے خیرخواہ بنے ہوئے ہوں گے۔ یہی سوال کررہے ہوں گے مہاجر۔۔۔ تمہیں کس نے اس حال تک پہنچایا۔ تم تو پاکستان کے باعزت باوقار طبقے کے لوگ تھے، لوگ تمہاری عزت کرتے تھے، تمہیں کالیا، پاجاما، ٹی ٹی، بھورا، ٹنٹا، لنگڑا، کمانڈو وغیرہ کس نے بنایا ہم تمہیں حقوق دلائیں گے۔ تین عشروں سے زیادہ کراچی کو لوٹ کر بھی یہ کراچی کو حقوق دلائیں گے۔ یہی نہیں لاڑکانہ سے اُٹھنے والے بھٹو خاندان کے لوگ ایک ایک کرکے لاڑکانہ کے قریب رتو ڈیرو مستقل رہائش اختیار بلکہ بے اختیار مستقل رہائش کے لیے پہنچ رہے ہیں۔ پورے لاڑکانہ اور اردگرد کے علاقوں میں سوئیکارنو کے 70 لاکھ ڈالر کا سوئیکارنو چوک بنا ہوا ہے یا المرتضیٰ اور اب قبرستان۔۔۔ یہی تین چار چیزیں ایسی ہیں جن کو لاڑکانہ کی ترقی کہا جارہا ہے۔ المرتضیٰ میں جو کچھ استعمال ہوا ہے اس شاہی قبرستان پر جو خرچ ہوا ہے اسے لندن پیرس والے دیکھ کر شرما جائیں۔ لاڑکانہ پیرس نہ بنا، اس کے دعویدار تو پیرس لندن دبئی میں رہتے ہیں۔ نوابشاہ بھی اسی طرح ترقی یافتہ ہے جس طرح آصف زرداری صاحب کے رکن قومی اسمبلی بننے سے پہلے اور صدر بننے کے بعد تھا۔ اگر حبیب جالب نے کیا تھا کہ
دن بدلے ہیں فقط وزیروں کے
تو اس میں کوئی غلط بات نہیں تھی۔ اس کام میں کوئی پیچھے نہیں رہا۔ ایم کیو ایم کے چھپے رستم تواب سب کے سامنے آگئے ہیں۔ پریس ریلیز انچارج اربوں کا مالک بنا۔ پی پی پی کا پریس ریلیز انچارج بھی اربوں کھربوں لے کر نکل گیا۔ ایک منٹ کی خاموشی۔۔۔ الیکشن کا اعلان ہوگیا ہے۔ مسلم لیگ، پی پی پی، ایم کیو ایم، اے این پی وغیرہ سے لٹنے والے ان ہی پر مرمٹنے کے لیے تیاری کررہے ہیں۔۔۔ پھو کون پوچھے گا تمہیں کس نے مارا۔