’’جوڈیشل مارشل لا‘‘ اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے

277

خدا جانے کہ ہم مارشل لا کی اصطلاح سے اس قدر مانوس کیوں ہو گئے ہیں کہ جب بھی ظلمت حالات فضاء پر برسنے لگتی ہے ہم مارشل لا کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ بے ساختہ حالات کے گرداب سے نکلنے کے لیے ایک سخت گیر ڈکٹیٹر اور منتظم کی یاد ستانے لگتی ہے۔ پھر جب ایک نسل اس نظام کے سائے میں پل کر جوان ہوتی ہے تو ہم اُکتا کر دوبارہ جمہوریت اور آئین کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ یہ ایک ایسی خرابی ہے جو ہمارے قومی مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ مارشل لا سے صرف اس قدر ہوتا ہے کہ خرابی کی راہوں پر دوڑتی ہوئی گاڑی کے آگے کچھ اسپیڈ بریکر نصب ہوجاتے ہیں اور یوں فطری طور پر اس گاڑی کی رفتار آہستہ ہوجاتی ہے مگر جب نفع ونقصان کی حقیقی بیلنس شیٹ مرتب ہوتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ طوفان اپنے اپنے پیچھے خرابیوں کا زوال کے اسکریپ کا فلک بوس پہاڑ چھوڑ چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا قومی مزاج اب کسی ایک نظام پر اکتفا کرنے کو تیار نہیں اور تجربات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس خوف زدہ کیفیت سے ہماری مانوسیت کا عکاس مرزا غالب کا یہ شعر ہے
اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے
اب رہائی ملی بھی تو مر جائیں گے
اب فوج مارشل لا لگانے سے بار بار انکار کررہی ہے مگر کان بجنے کا عمل یا کچھ اور اس کے باجود ہمیں نادیدہ قدموں کی چاپ سنائی دے رہی ہے۔ فوجی مارشل لا کے ساتھ ساتھ اب عدالتی مارشل لا کی باتیں بھی ہونے لگی ہیں۔ جس کی وضاحت پرخود اعلیٰ عدلیہ کے سربراہ کو مجبور ہونا پڑا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے جوڈیشل مارشل لا کی افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ جوڈیشل مارشل لا کا آئین میں کوئی تصور نہیں۔ ہم نے بھی آئین کے تحفظ کا حلف اُٹھایا ہے۔ قسم کھاتا ہوں اس ملک میں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں۔ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے آئین کے تحفظ اور جمہوریت سے وابستگی کا اظہار پہلی بار نہیں کیا۔ وہ مسلسل جمہوریت اور آئین کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان وضاحتوں کی ضرورت اس لیے پیش آرہی ہے کہ آئے روز کوئی نہ کوئی افواہ ساز فیکٹری جمہوریت کی گاڑی کے ڈی ریل ہونے کی افواہ چھوڑتی ہے۔ جس کے بعد قیاس آرائیوں اور افواہوں کے طوفانی جھکڑ چلنے لگتے ہیں۔
سینیٹ انتخابات کے کامیاب انعقاد نے اس افواہوں کو عملی طور پر غلط ثابت کیا تھا مگر اب شیخ رشید احمد نے چیف جسٹس سے ملک میں جوڈیشل مارشل لا نافذ کرنے کا مطالبہ کرکے افواہوں کا نیا سلسلہ شروع ہونے کی بنیاد رکھ دی تھی۔ بعد میں خود شیخ رشید نے اپنے اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے انتخابات کی قیمت پر جوڈیشل مارشل لا کی بات نہیں کی تھی بلکہ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے تمام انتظامات عدالت کو اپنے ہاتھ میں لینے چاہیے۔ انتخابات کے انعقاد کے لیے عبوری حکومت قائم کی جانے والی ہے۔ عبوری حکومت کا قیام اپوزیشن کی مشاورت سے ہونا ہے۔ سینیٹ انتخابات کے بعد حکومت اور اپوزیشن بالخصوص پیپلزپارٹی کے درمیان جو اختلافات پیدا ہوئے ہیں سردست ان کا کم ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ حکومت اگر یک طرفہ طور پر عبوری حکومت قائم کرتی ہے تو یہ سوال پیدا ہونا فطری امر ہے کہ کیا اپوزیشن اس یک طرفہ فیصلے کو قبول کرتی بھی ہے یا نہیں؟۔ ان حالات میں شیخ رشید احمد جوڈیشل مارشل لا کی بات کی تھی۔ جوڈیشل مارشل لا کی اصطلاح قعطی بے معنی ہے یہ تو ہوسکتا ہے کہ عدلیہ کے کسی ریٹائرڈ جج کی قیادت میں عبوری حکومت قائم کی جاسکتی ہے مگر اس سے کیا جوہری تبدیلی واقع ہو گی ؟۔ اصل کام تو الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کو ہی کرنا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے جوڈیشل مارشل لا کے ماورائے آئین تصور سے اعلان برات کیا ہے۔ اس اعلان کے بعد جمہوریت کو اب افواہوں اور فرضی خطرات کے سایوں سے آزاد ہونا چاہیے۔ اس وضاحت کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ ملک میں جمہوریت کا سفر کسی رکاوٹ اور خطرے کے بغیر جاری رہے گا۔ اس حوالے سے دل میں رنگ برنگی خواہشات پالنے والوں کی خواہشوں کا باغ خزاں گزیدہ ہی رہے گا۔ پاکستان کا آئین ہی اس کا سوشل کنٹریکٹ ہے جس کی پاس داری سب اداروں کا فرض ہے۔ آئین اور قانون کی حکمرانی کے بغیر معاشرے حقیقی ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اور طبقات شارٹ کٹ کی تلاش میں ملک کو عدم استحکام کی راہوں کی طرف دھکیلنے کے بجائے آئین اور قانونی کی حکمرانی سے وابستہ ہوجائیں اور اپنی خواہشات کے بجائے آئین اور قانون کے آگے خود سپردگی اختیار کریں۔ سیاست دان فلسفہ ناگزیریت کو اپنے ذہن ودل سے جھٹک دیں اور فوج جمہوریت کی خرابی کا حل مزید جمہوریت کا فلسفہ اختیار کرے۔