بلدیہ عظمیٰ کراچی تباہی کے دہانے پر!

467

اس بات میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے کہ سرکاری افسران اپنے فرائض اس لیے توجہ سے ادا کرتے ہیں کہ انہیں بھر پور کمیشن ملنے کا یقین ہوتا ہے لیکن افسوس اور حیرت ان منتخب لوگوں پر ہوتی ہے جو خود بھی بھاری کمیشن کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ملک کے تمام ہی بلدیاتی اور دیگر اداروں میں کرپشن عروج پر ہے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے فنانس سے متعلق محکموں کے تعاون کے بغیر کسی بھی ادارے میں بدعنوانی ممکن نہیں ہے۔ یہاں رونا فی الحال بلدیہ عظمیٰ کراچی کے حوالے سے ہے۔ جس کے کرپٹ منتخب عناصر اور افسران نے عدالت عظمیٰ کے تجاوزات ہٹانے کے حکم کو بھی ’’کیش‘‘ کرانے کا بڑا ذریعہ بنالیا۔ صرف تجاوزات ہٹانے کے لیے حکومت سندھ کو اس کے اپنے افسران کے تعاون سے لوٹنے کا مبینہ پروگرام بنایا ہے۔ ’’لوٹنے‘‘ کا لفظ اس لیے یہاں استعمال کیا گیا ہے کہ یہ لوٹ مار تو ہے جس میں متعلقہ حکام اور افسران کی چاندی ہوجائے گی۔ اس واردات کے نتیجے میں اصل متاثر تو کراچی کے شہری ہوں گے اور ہورہے ہیں۔ تجاوزات تو پھر دوبارہ قائم ہوجائیں گی جیسے ہوتی رہی ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے ملک کے سب سے بڑے شہر میں غیرقانونی تجاوزات اور رفاعی پلاٹوں پر کی جانے والی چائنا کٹنگ کا نوٹس لیا اور حکم دیا کہ جلد سے جلد ان کا خاتمہ کیا جائے۔ یہ حکم ملنا تھا کہ بلدیہ عظمیٰ کے کرپٹ عناصر کے ’’منہ میں پانی بھر آیا‘‘ انہوں نے حکومت سے پیسے بٹورنے کا منصوبہ بنالیا۔ اس مقصد کے لیے ماہر گریڈ 20 کے کے ایم سی افسر کی خدمات حاصل کی گئی۔ جو ان دنوں سینئر ڈائریکٹر ’’کوآرڈینیشن‘‘ کی ایک ایسی اسامی پر میئر وسیم اختر کی ہدایت پر کام کررہے ہیں جس کا بجٹ دستاویزات میں ذکر نہیں ہے۔ موصوف افسر نے بلدیہ کراچی کی سب سے اہم شخصیت کو مشورہ دیا کہ سیکرٹری بلدیات کو ایک سمری بھیجی جائے جس میں ان تجاوزات کے قائم ہونے کی تمام ذمے داری سابقہ سٹی گورنمنٹ کے محکمہ اینٹی انکروچمنٹ پر ڈال دی جائے ساتھ ہی حکومت سے تجاوزات کے اور چائنا کٹنگ کے خاتمے کے لیے 5 ارب روپے مانگے جائیں تاکہ اس رقم سے نئی مشینیں بھی خریدیں جاسکیں اور تجاوزات ہٹانے کے لیے اب تک کرائے پر حاصل کی جانے والی مشینری کا کرایہ ادا کیا جاسکے۔ یہ تجویز ابتدائی طور پر سب ہی کو پسند آئی مگر ایک افسر کے اعتراض پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ 5 ارب روپے کے بجائے ایک ارب 20 کروڑ روپے بلدیہ کراچی کو دینے کی درخواست کی جائے۔ میئر کی منظوری سے سمری تیار کرکے حکومت کو بھیج دی گئی۔ اس سمری میں بتایا گیا کہ تمام تجاوزات اور پلاٹوں پر چائنا کٹنگ کرکے غیرقانونی تعمیرات 2003 تا 2015 کے دوران کی گئیں۔ مطلوبہ رقم سے 70کروڑ روپے مشینری اور دیگر ایکیوئپمنٹ خریدیں جائیں گے جب کہ باقی رقم مشینری خریدے جانے تک کرائے پر مشینری حاصل کرکے تجاوزات ہٹانے کی کارروائی پر خرچ کی جائے گی۔ یہ سمری قائم مقام میٹروپولیٹن کمشنر ڈاکٹر اصغر عباس جو صرف ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں اور خلاف ضابطہ نہ صرف ایم سی بلکہ فنانشل ایڈوائزر کی اسامی پر خدمات انجام دے رہیں کے دستخط سے حکومت کو بھیج دی گئی۔ سمری میں غلط بیانی کرتے ہوئے یہ بتایا گیا کہ تجاوزات سابقہ شہری ضلعی حکومت کے دور میں 2003 تا 2015 تک قائم ہوئیں حالاں کہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ 2011 میں کراچی سمیت ملک بھر سے ختم کی جاچکی تھی۔ نا صرف سمری میں حکومت سے غلط بیانی کی گئی بلکہ عدالت کو بھی یہی بتایا گیا۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا گیا کہ چوں کہ تمام رفاعی پلاٹوں کا ریکارڈ سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی کے ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ کے پاس ہے اور وہ انہیں اس کی تفصیلات بتانے سے گریز کررہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کے ایم سی کو رفاعی پلاٹوں پر قبضوں اور تجاوزات قائم کیے جانے کا علم نہیں ہے تو پھر کس طرح یہ معلوم ہوا کہ یہ سب 2003 تا 2015 کے درمیان ہوا ہے۔
سوال تو یہ بھی کہ کیا سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے افسران جنہیں تجاوزات کا ذمے دار ٹھیرایا گیا ہے ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی تھی؟ کہیں انہیں اس ناجائز کارروائی کے بعد ترقیاں تو نہیں دیدی گئیں؟ کے ایم سی کے امور سے واقف حال افسران کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو تجاوزات کے خاتمے کے لیے حکومت سے کے ایم سی فنڈز طلب کررہی ہے تو دوسری طرف لانڈھی کیٹل کالونی کے قریب وول واشنگ ایریا کی 270 ایکڑ اراضی کو یہی افسران مبینہ طور چائنا کٹنگ اور لاڑکانہ کٹنگ کے نام سے قبضے کرانے میں مصروف ہیں۔ یہ وہ اراضی ہے جسے سابق ایڈمنسٹریٹر ثاقب سومرو کے دور میں غیرقانونی طور پر ایکڑز کے حساب سے نیلام کرنے کی کوشش کی جارہی تھی جسے حکومت نے جسارت اخبار کی خبر پر روک دیا تھا۔ پتا چلا ہے کہ نیب کے مقدمات میں ملوث ڈائریکٹر لینڈ اب یہاں زمینوں کی حفاظت کرنے کے بجائے ان کی بندر بانٹ میں مصروف ہیں۔ واقف حال افسران کا کہنا ہے کہ اب کے ایم سی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ یہاں بعض افسران ایک مافیا کے روپ میں کام کرتے ہیں۔ اس مافیا میں انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والے ’’نایاب‘‘ افسران کے ساتھ فائر برگیڈ، مشینری پول، لینڈ، اینٹی انکروچمنٹ، فوڈ و کوالٹی کنٹرول، اسپورٹس و کلچرل، چارج پارکنگ اور وہیکل کے شعبوں کو جکڑے ہوئے جونیئرز افسران بھی شامل ہیں جنہیں خلاف ضابطہ، او پی ایس اور ڈیپوٹیشن کی بنیاد پر تاحال تعینات کیا ہوا ہے۔
اختیارات اور مالی وسائل کا رونا رونے والے میئر باآسانی ملازمین کی تنخواہوں، اوورٹائم اور پینشن کی مد میں آنے والی ماہانہ 55 کروڑ روپے کی رقم مبینہ طور پر ٹھیکیداروں کے بقایا جات دیگر مدات میں خرچ کرنے کی اجازت دے دیا کرتے ہیں۔ تو یقیناًان کے پاس یہ اختیارت ہوں گے۔ کے ایم سی کے ملازمین و افسران کو پیر تک گزشتہ ماہ کی تنخواہیں نہیں مل سکیں تھیں۔ جب کہ فائر برگیڈ سے وابستہ عملے کو فائر الاوئنس کی مد میں گزشتہ نو ماہ سے کوئی رقم نہیں ملی۔
منتخب نمائندوں اور افسران کی عدم دلچسپی کی وجہ سے پوری بلدیہ کے کسی محکمے نے رواں مالی سال کے بجٹ میں مختص آمدنی کا 20 فی صد ہدف بھی حاصل نہیں کرسکے۔ کیا یہ امدنی پوری کرنے کے لیے بھی منتخب نمائندوں کو اختیارات اور مالی وسائل کی ضرورت ہے؟
میرا خیال ہے کہ عدالت عظمیٰ کو کے ایم سی میں مسلسل کئی کئی سال سے اہم اسامیوں پر تعینات افسران کے اثاثوں کی تحقیقات کے ساتھ ان کے امور کی چھان بین کرانی چاہیے تاکہ ’’دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے‘‘۔