کراچی ( رپورٹ : محمد انور ) وفاقی حکومت نے واضح کردیا ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے منصوبے کے فور کی لاگت میں اضافے کی صورت میں وہ کوئی بھی مدد نہیں کرسکے گی جبکہ دوسری طرف اس منصوبے کی کل لاگت 46 ارب تک پہنچنے کے بعد اس بات کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ اگر مسلم لیگ نواز کی حکومت دوبارہ اقتدار میں آگئی تو یہ پروجیکٹ 2023ء تک بھی مکمل نہیں ہوسکے گا۔ باخبر سرکاری ذرائع کے مطابق وفاقی حکام نے چند روز قبل ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے حوالے سے سندھ حکومت اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو بھیجے گئے سرکلر میں واضح کردیا ہے کہ کے فور منصوبے کے لیے
وفاق پہلے سے طے کردہ 50 فیصد شیئرز سے زیادہ کچھ بھی ادا نہیں کرے گا۔ منظورشدہ پی سی ون کے تحت وفاق کو کل لاگت 25 ارب روپے کے نصف 12 ارب 50 کروڑ روپے ادا کرنے ہیں اور وہی کرے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاق نے پلاننگ کمیشن کے چیف مانیٹرنگ آفیسر ظہور علی شاہ کی جانب سے موصولہ اس رپورٹ پر بھی تشویش ظاہر کی ہے کہ منصوبے پر کام شیڈول کے تحت نہیں ہورہا بلکہ جاری کام کی رفتار قدرے سست ہے۔ اس لیے اس کی لاگت میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے جو پہلے ہی 25 ارب روپے سے بڑھ 32 ارب تک پہنچ چکی ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ منصوبے کی کل لاگت جس میں اگمین ٹیشن پلان بھی شامل ہے بڑھ کر46 ارب تک پہنچ جائے گی، یہ رقم پورے کراچی کے3 سال کے ترقیاتی بجٹ کے مساوی ہے۔ واٹر بورڈ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ صرف اگمن ٹیشن پلان پر کم و بیش11 ارب روپے لاگت آئے گی، اس پلان کے تحت کے فور سے شہر کے مختلف علاقوں میں پانی پہنچانے کے لیے پائپ لائنیں بچھائی جائیں گی۔ یاد رہے کہ کے فورمنصوبے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے انجینئر کے بجائے نان ٹیکنیکل آفیسر کے تقرر کی وجہ سے اربوں روپے لاگت کے اس پروجیکٹ میں فنی نوعیت کے نقائص آنا شروع ہوچکے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ پروجیکٹ ڈائریکٹر کی اس منصوبے کے حوالے سے مبینہ طور پر معلومات بھی ناقص ہیں، وہ پروجیکٹ کے حوالے سے فنی نوعیت کی بریفنگ بھی دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس ضمن میں جب نمائندہ جسارت نے پی ڈی اسد ضامن سے رابطہ کرکے ان سے کے فور کے منصوبے کی سست رفتاری اور لاگت میں اضافے کے حوالے بات کرنے کی کوشش کی تو ان کا فون مسلسل مصروف رہا جس پر نمائندے نے انہیں ایس ایم ایس کیا لیکن سابق بیورو کریٹ کے صاحبزادے نے ٹیکسٹ میسج کا جواب دینے سے بھی گریز کیا۔ یاد رہے کہ مذکورہ منصوبے کو شیڈول کے تحت رواں سال دسمبر تک مکمل ہوجانا چاہیے تھا لیکن پروجیکٹ کی رفتار سست ہونے سے اب اس میں غیر معمولی تاخیر کے خدشات واضح ہوچکے ہیں۔