صاحبو! ہم تو قائل ہوگئے راؤ انوار کی روحانی عظمتوں کے۔ مرشد راؤ انوار کی پہلی روحانی واردات اس وقت سامنے آئی جب سابق چیف جسٹس چودھری افتخاراحمد کی عدالت میں جوکھیو اور گبول قبائل کے افراد نے ان پر گڈاپ ٹاؤن کراچی میں زمینوں پر قبضے اور زبردستی زمینوں کے کھاتے تبدیل کرنے کا الزام لگایا۔ ان افراد کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری کے حکم پر اویس مظفر ٹپی، ایس ایس پی راؤ انوار اور ایس ایس پی عرفان بہادر لوگوں سے زبردستی زمین اپنے نام کروا رہے ہیں۔ کچھ ریونیو افسران کے نام بھی شامل تھے۔ عدالت نے اگلی سماعت پر سب کو طلب کرلیا۔ تاہم کوئی عدالت میں پیش نہ ہوا۔ چیف جسٹس نے محکمہ ریونیو کے افسران کو اگلی سماعت میں گڈاپ میں منتقل ہونے والی زمینوں کے ریکارڈ کے ساتھ پیش ہونے کا حکم دیا۔ ریکارڈ پیش ہوا تو پتا چلا کہ تقریباً 20ہزار ایکڑ سے زائد اراضی دو برس کے دوران منتقل ہوچکی ہے۔ عدالت نے مزید ریکارڈ طلب کیا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اگلی سماعت سے چند روز قبل ریونیو کے دفتر میں آگ لگ گئی اور تمام ریکارڈ جل گیا۔ مدعی بھی پراسرار طور پر غائب ہوگئے۔ جو لوگ راؤ انوار کو عام انسان سمجھتے ہیں ان کے لیے اس واقعے میں سبق پوشیدہ ہے کہ راؤ انوار کتنی بڑی روحانی شخصیت ہیں۔
روحانیت کی جس معراج پر راؤ انور فائز ہیں اس کا ادراک کوئی صاحب علم ہی کرسکتا ہے تاہم اس کی چند جھلکیاں گزشتہ دنوں عدالت عظمیٰ میں دیکھنے کو ملیں۔ جو لوگ روحانیت کے منکر ہیں وہ اس ایک واقعے میں راؤ انوار کی کرامات کے متعدد پہلو دیکھ سکتے ہیں۔ بہتر ہے پہلے اس واقعے کا کچھ پس منظر بیان کردیا جائے۔ 13جنوری 2018 کو ایک نوجوان کی پولیس مقابلے میں گولیوں سے چھلنی اوندھی پڑی ہوئی لاش سامنے آئی۔ یہ نوجوان نقیب اللہ محسود تھا۔ اس پر الزام تھا کہ اس کے لشکر جھنگوی اور داعش سے تعلقات تھے۔ خوبرو نوجوان کی اس تصویر نے ملک بھر میں بے چینی پھیلادی۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر غیر معمولی ردعمل دیکھنے میں آیا۔ یہ سوال بڑی شدت کے ساتھ سامنے آیا کہ کب تک خود ہی منصف بن کر نوجوانوں کو عدالت میں پیش کیے بغیر قتل کیا جاتا رہے گا۔ مین اسٹریم میڈیا بھی سوشل میڈیا میں اٹھنے والی اس آواز میں اپنی آواز ملانے پر مجبور ہوگیا۔ عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ حکومتی ایوانوں میں بھی نقیب اللہ محسود کے قتل پر آوازیں اٹھنے لگیں۔ عوامی مزاحمت اس قدر شدت اختیار کر گئی کہ قبائلی علاقوں اور کراچی کے مختلف علاقوں میں جلاؤ گھیراؤ شروع ہوگیا۔ ارباب اختیار کو ہوش آیا۔ انکوائری کمیٹیاں بنیں۔ کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ ہی میں نقیب اللہ محسود کے حوالے سے راؤ انوار کے دعووں کی تردید کردی۔ عدالت عظمیٰ نے بھی اس دوران اس معاملے کا ازخود نوٹس لے لیا۔ پولیس تحقیقات پر عدم اعتماد کا اظہار کرکے راؤ انوار غائب ہوگئے۔
یہ تمام تفصیلات ہم نے بہ زبان میڈیا بیان تو کردی ہیں لیکن یہیں سے مرشدی راؤ انوار کی روحانی تجلیات کا آغاز ہوتا ہے۔ وہ پاکستانی انٹیلی جنس ادارے جن سے بھارتی، اسرائیلی اور دنیا بھر کی انٹیلی جنس ایجنسیاں عاجز ہیں راؤ انوار کی گرفتاری ان کے لیے درد سر بن گئی۔ انہیں بڑی عاجزی کے ساتھ راؤ انوار کو ٹریس کرنے میں ناکامی کا اعتراف کرنا پڑا۔ اس دوران کچھ پر اسرار واقعات بھی پیش آئے۔ مثلاً تحقیقاتی ٹیم راؤ انوار کی لوکیشن چیک کرنے بیٹھی تو مرشدی راؤ انوار ایک وقت میں دو مختلف مقامات پر موجود نظر آئے۔ راؤ انوار کے زیر استعمال دو مختلف موبائل نمبر کی لوکیشن ٹریس کرنے پر ایک نمبر کی لوکیشن جامشورو اور دوسرے کی راولپنڈی میں شو ہوئی۔ معلوم کرنے پر پتا چلا ایک نمبر خیر محمد اور دوسرا احسان اللہ کے نام رجسٹرڈ تھا۔ جب کہ راؤ انوار خود اسلام آباد میں موجود تھے۔ بزرگوں کی حکایات ہم نے پڑھی ہیں ان میں ایک بزرگ کا ایک ہی وقت میں دو مختلف مقامات پر پایا جانا تو لکھا تھا لیکن تین مقامات پر؟۔ اللہ کی دین ہے یہ رتبہ بلند راؤ انوار کے حصے میں آیا۔ روحانی طاقت سے نا آشنا لوگ اسے جدید ٹیکنالوجی کا کمال کہتے ہیں۔ اسی دوران مرشدی راؤ انوار کو گھر والوں کی یاد آئی۔ ان سے ملنے آپ نے دبئی جانے کا قصدکیا۔ اسلام آباد ائر پورٹ پر آپ کو روک لیا گیا۔ آپ نے چیف سیکرٹری کے نام کا این او سی پیش کیا جس پر آپ جلدی میں چیف سیکرٹری کے دستخط کرانا بھول گئے تھے۔ کوئی اور ہوتا تو اسے جعلسازی کے جرم میں گرفتار کرلیا جاتا لیکن مرشدی راؤ انوار کی تجلیات کے سامنے کس کو پر مارنے کی جرات! ائر پورٹ حکام نے نہ صرف یہ کہ انہیں کچھ نہیں کہا بلکہ واپس اپنے ٹھکانے پر جانے کی اجازت بھی دے دی۔
یہ مختصر سا کالم مرشدی راؤ انوار کی تجلیات کا مکمل احاطہ نہیں کرسکتا تاہم عدالت عظمیٰ میں ان کی دبنگ انٹری نے اچھے اچھے منکرین کی زبان بند کردی ہے۔ ہوا یوں کہ راؤ انوار عدالت عظمیٰ سے حفاظتی ضمانت ملنے کے باوجود گرفتاری نہیں دے رہے تھے۔ پوری ریاستی مشینری بشمول عدلیہ پر سوالات اٹھ رہے تھے۔ اس سوموٹو مقدمے کی پچھلی پیشی پر چیف جسٹس صاحب نے تقریباً منت سماجت کے انداز میں مرشدی راؤ انوار سے خود کو ظاہر ہونے (جسے عام پبلک میں گرفتاری کہا جاتا ہے) کی درخواست کی تھی۔ اللہ والوں کا یہ دستور نہیں کہ خلق خدا کو پریشان کریں۔ سو اگلی پیشی پر راؤ انوار عدالت کے روبرو از خود پیش ہوگئے۔ عدالت عظمیٰ میں ان کا داخلہ ہی ان کے بلند روحانی مراتب کی نشاندہی کرتا ہے۔ عدالت عظمیٰ پیشی کے موقع پر بڑے بڑے وکلا، افسران، سیاستدان یہاں تک کہ جے آئی ٹی کے ارکان بھی اپنی گاڑیاں دور پارک کرتے ہیں اس کے بعد وہ پیدل چلتے ہوئے عمارت تک جاتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کی عمارت میں جہاں تک راؤ انوار اپنی سفید گاڑی لے آئے وہ ان کے بلند روحانی مرتبے کا کمال تھا۔ ایک ایسا شخص جو ملزم ہی نہیں بلکہ مفرور ہو، اس کے وارنٹ نکلے ہوئے ہوں، وہ گرفتاری نہ دے رہا ہو، اچانک عدالت عظمیٰ کے صدر دروازے تک بلا رکاوٹ اپنی کار لے آئے اور ماسک اتار کر خراماں خراماں اندر چلا جائے۔ پولیس اہل کار اسے ہاتھ لگانا تو درکنار بصد احترام اندر لے جائیں۔ اسے آپ کیا کہیں گے؟۔ اس کے بعد بھی کوئی راؤ انوار کی کراماتی شخصیت کا اعتراف نہ کرے تو اسے کج بحثی اور ہٹ دھرمی کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔
عدالت عظمیٰ کے احکامات پر عمل نہ ہونے کی صورت میں عدالت کا لب ولہجہ بہت سخت ہوتا ہے۔ اس موقع پر عدالت جو سوالات کرتی ہے وہ معمول کے سوال نہیں ہوتے۔ عدالت بہت گہری تفصیل میں جاتی ہے۔ اس دوران کہاں رہے؟ کس نے تحفظ دیا؟ سہولت کار کون تھا؟ گزشتہ روز ہی محترم چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر راؤ انوار کا کوئی سہولت کار نکلا تو سخت کارروائی ہوگی لیکن یہ راؤ انوار کی کرشماتی شخصیت تھی کہ ان کی آمد پر محترم چیف جسٹس نے شکر الحمد للہ کہا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ: ’’یہ کورٹ کی عزت ہے جس کے سامنے وہ پیش ہوئے ہیں۔‘‘ محترم چیف جسٹس کا راؤ انوار سے شایان شان سلوک کرنے میں جو رمز پوشیدہ ہے اسے اللہ والے ہی جان سکتے ہیں۔ ہمیں تو چیف جسٹس صاحب بھی بہت گہرے دکھتے ہیں۔ وہ بھی روحانی راستوں کے مسافر نظر آتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ روحانی شخصیات پر ماورائی قوتوں کا سایہ ہوتا ہے۔ یہ قوتیں ان کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں، بظاہر نظر نہیں آتیں۔ چیف جسٹس صاحب یقیناًآگاہ ہوں گے یہ ماورائی قوتیں کون ہیں ورنہ وہ ہر کسی کو عدالت عظمیٰ کے احکامات پر عمل نہ کرنے پر سخت نتائج کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ ان ماورائی قوتوں نے مرشدی راؤ انوار کو کون کون سی روحانی طاقتیں ودیعت کی ہیں، چیف جسٹس جانتے ہوں گے۔ ممکن ہے جن ماورائی قوتوں نے مرشدی راؤ انوار کو ہوا لگانے کے لیے باہر نکا لا ہے وہ یہ چاہتی ہوں کہ: چھوڑیے یہ روحانی معاملات ہیں، ہم دنیاداروں کو ان میں دخل نہیں دینا چاہیے۔