نئے ڈیم کی عدم تعمیر سے ملکی زراعت تباہ ہوجائے گی‘ احمد علی گورائیہ

184

فیصل آباد(وقائع نگار خصوصی)کسان بورڈکے ڈویژنل صدر علی احمدگورایہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں آبی و سائل کی ترقی اور دریاؤں کے تحفظ کیلیے کوئی خاطر خواہ عملی اقدامات نہیں کیے گئے اورنئے ڈیم نہ بنائے گئے تو پاکستان کی زراعت اور معیشت تباہ ہو جائے گی۔ ضرورت کے پیش نظر بھارت سمیت اکثر ممالک نے اپنے قانون میں پانی کو قومی اثاثہ قرار دیا ہے۔لیکن پاکستان میں آبی و سائل کی ترقی اور دریاؤں کے تحفظات کیلیے کوئی خاطر خواہ عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ ملک میں پانی کی کمی اور پانی کی آلودگی بڑا مسئلہ بن کر سامنے آچکا ہے ،ملک پینے کے صاف پانی کے سنگین بحران سے دو چار ہے۔صاف و شفاف پانی ملک کے صرف 22 فیصد شہریوں کو دستیاب ہے۔آلودہ اور زہریلا پانی پینے سے ہلاکتوں میں بے پنا اضافہ ہوا ہے۔ عوام مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر زندہ لاشے بنتے جارہے ہیں۔زیر زمین پانی میں زہر یلا مواد اور فضلہ شامل ہونے سے آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔اور زیر زمین پانی کی ری چارجنگ نہ ہونے سے پانی زہریلا اور کڑوا ہو چکا ہے۔ اس نعمت خداوندی کو نہ بچایا گیا تو خدشہ ہے کہ 2025ء تک پانی صرف بوتل ہی میں دستیاب ہو گا۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں آبی مسائل کے پیش نظر اقوام متحدہ کو اپنے چارٹر میں اصلاحات کرنا ہوں گی چونکہ137ممالک پانی کے مسائل سے دو چار ہیں۔ اور جنوبی ایشیا میں دنیا کا بڑا واٹر سیکٹر تباہی کے دہانے پر ہے جس سے کروڑوں انسانوں کو زندگی اور موت کا مسئلہ در پیش ہے جس کو نہ سلجھایا گیا تو تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بھارت نے اس بار ان دریاؤں کا ذکر کیا جن پر پاکستان محدود حق رکھتا ہے۔دریائے ستلج، بیاس اور راوی کا 9ملین ایکڑ فٹ پانی ان دریاؤں کا حق ہے۔ دریائی حیات اور دریاؤں کے تحفظات کے لیے پانی ریلیز ہونا چاہیے۔ سندھ طاس معاہدے میں بھی اس کی گنجائش موجود ہے۔ عالمی قوانین اور بارسلونا کنونشن کے تحت دریاؤں کو ہرگز بند نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت دریاؤں کی بندش سے باز رہے چونکہ پانی کی بندش بہت بڑا انسانی مسئلہ ہے۔ بھارت انتہائی انسانیت سوز عوامل پر اتر آیا ہے۔ اقوامِ متحدہ بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں ظلم ، آبی جارحیت اور دہشت گردی کا نوٹس لے ۔دریاؤں کے تحفظات اور دریائی پانی کی مانیٹرنگ کے لیے سندھ طاس ڈیفنس فورس کا قیام عمل میں لایا جائے۔ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے ایسے خطّے میں واقع ہے جہاں آبی ذخائر کی تعمیر کے بغیر ہم ریت کے ڈھیر پر کھڑے ہیں۔ لہٰذا فی الفور بڑے آبی ذخائر کی تعمیر ناگزیر ہے۔ دوسری طرف پانی کے ضیاع میں بے پنا اضافہ لمحہ فکر ہے ۔