اہم ملاقات مگر کیا بات ہوئی؟

354

گزشتہ منگل کو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور چیف جسٹس ثاقب نثار میں ایک طویل ملاقات ہوئی اور خبروں کے مطابق اہم امورہی پر گفتگوہوئی۔ جب دو اہم شخصیات ملتی ہیں تو اہم امور پر گفتگو ہوتی ہے۔ یہ ملاقات وزیر اعظم کی درخواست پر ہوئی۔ حکومت پاکستان کے منتظم اعلیٰ اور عدالت عظمیٰ کے منتظم اعلیٰ یعنی چیف جسٹس، دونوں ہی پاکستان کے اہم ستون ہیں اور پاکستانی ہیں۔ چنانچہ ان کی ملاقات پر انگشت نمائی نہیں ہونی چاہیے۔ آخر فوج کے سربراہ اور وزیر اعظم میں بھی تو ملاقات ہوتی ہے ۔عدلیہ ،فوج اور حکومت یہ سب پاکستان کے سب سے اہم ستون ہیں۔ وہ دن گئے جب کہاجاتاتھا کہ چیف جسٹس یا دیگر ججوں کو انتظامیہ سے فاصلہ رکھنا چاہیے۔ بلکہ عوامی تقریبات میں شرکت سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ یہ اس لیے تھا کہ جج دوسروں کی آرا سے متاثر نہ ہوجائیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب یہ بھی کہاجاتاتھا کہ جج نہیں بولتے ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ بعض ترقی یافتہ ممالک میں جہاں عدالت کی معاونت کے لیے جیوری منتخب کی جاتی ہے وہاں تو جیوری کے ارکان کو کسی مقدمے کی سماعت کے دوران میں باہم ملنے تو کیا اخبارات پڑھنے پر بھی پابندی ہے۔ لیکن پاکستان میں ایسی پابندیاں نہیں ہیں اور چیف جسٹس اور وزیر اعظم میں ملاقات کا یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے ملاقات کی تھی جس کے بعد جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی بطور ایڈ ہاک جج ملازمت میں توسیع دی گئی تھی حالانکہ صدر آصف علی زرداری نے چیف جسٹس کی خواہش کے باوجود توسیع دینے سے انکار کردیا تھا اور ایک تناؤ کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی جسے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے چیف جسٹس سے ملاقات کرکے دور کیا۔ اس سے پہلے 2007ء میں عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اوروزیر اعظم شوکت عزیز مل بیٹھے تھے۔ اس ملاقات میں شوکت عزیز نے چیف جسٹس سے استعفا طلب کیاتھا۔ شاہد خاقان عباسی نے تو درخواست دے کر ملاقات کا وقت لیا لیکن 16فروری 2010ء کو یوسف رضا گیلانی نے کسی دعوت یا اطلاع کے بغیر عدالت عظمیٰ پہنچ کر چیف جسٹس سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات پر اس وقت کی اپوزیشن نے اسی طرح اعتراض وارد کیا تھا جس طرح شاہد خاقان عباسی اور چیف جسٹس ثاقب نثار کی ملاقات پر موجودہ حزب اختلاف کا رد عمل سامنے آیا ہے۔ شوکت عزیز جسٹس چودھری ملاقات کے وقت انتظامیہ اور عدلیہ میں کشیدگی اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی آج ہے ۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کہتے ہیں کہ ملاقات کا یہ وقت مناسب نہیں تھا، شکوک و شبہات جنم لیں گے۔ اور وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں کہ ملاقات کو غلط رنگ نہ دیاجائے۔ تو وہ صحیح رنگ بتادیں کہ ایجنڈا کیاتھا؟ ایسے کون سے معاملات تھے جن کے لیے وزیر اعظم کو ملاقات کے لیے جانا پڑا ۔ نامعلوم ذرائع کہتے ہیں کہ نواز شریف کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی نہ ان کے مقدمات زیر بحث آئے۔ ممکن ہے کہ صرف موسم پر تبادلہ خیال ہواہو کہ شدید گرمی پڑنے والی ہے، اسلام آباد میں پولن الرجی بڑھتی جارہی ہے یا یہ کہ پانی کی قلت کے خدشات ہیں۔ کچھ دیر تو ایک دوسرے کی خیریت پوچھنے اور رسمی باتوں میں لگ گئی ہو گی۔ ملاقات ہوئی ، کیا بات ہوئی اس پر قیاس آرائیاں تو ہوں گی۔ عدلیہ سے کھلم کھلا محاذ آرائی اور کشید گی بڑھانے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف ، ان کی بیٹی مریم اور ن لیگ کے دیگر حواریوں کا کردار سب کے سامنے ہے۔ چیف جسٹس کا وقار مانع ہوگا کہ گھر آئے ہوئے مہمان سے کوئی کڑوی بات کریں۔ وہ یہ کہنے سے تو رہے کہ اپنے تا حیات قائد کو سمجھائیں کہ توہین عدالت سے باز رہیں۔ یہ کام تو میاں نواز شریف کے دیرینہ رفیق چودھری نثار بھی کرکے دیکھ چکے ہیں لیکن کیا ملا عرض مدعا کرکے، بات بھی کھوئی التجاکرکے۔ اب تمام پرانے ساتھی خود چودھری نثار کے پیچھے ہاتھ دھوئے بغیر پڑ گئے ہیں حتیٰ کے مشاہد اللہ خان بھی وفاداری نبھارہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق دونوں میں حکومتی گورننس، عام انتخابات اور حلقہ بندیوں پر تبادلہ خیال ہوا۔ جسٹس ثاقب نثارنے کہا ٹیکس مقدمات جلد نمٹائیں گے اور وزیر اعظم نے کہا کہ سستے فوری انصاف کی فراہمی اور عوام تک رسائی کے لیے مکمل تعاون کریں گے۔ویسے یہ بات سنتے سنتے کئی عشرے بیت گئے ، عوام تک انصاف کی رسائی آج بھی ایک وہم، گمان اور خواب ہے۔ ورنہ تو ایک پاکستانی خاتون کو انصاف کے لیے کسی چیف جسٹس کی گاڑی نہ روکنی پڑتی۔ وزیر اعظم نے واٹر پالیسی کی منظوری سے بھی چیف جسٹس کو آگاہ کیا اور انہوں نے کہا کہ عدلیہ بلاخوف اپنی آئینی ذمے داریاں ادا کرتی رہے گی۔ چیف جسٹس نے یہ تو نہیں پوچھاہوگا کہ جس کو ہم نے نا اہل قراردے کر وزارت عظمیٰ سے فارغ کردیاتھا ، اسی کو آپ کہتے ہیں کہ میرا وزیر اعظم تو وہی ہے۔ وزیر اعظم نے یہ شکوہ بھی نہیں کیاہوگا کہ عدالت عظمیٰ ہمیں کام ہی نہیں کرنے دیتی اور پھر بری گورننس کا شکوہ کرتی ہے۔ شاہد خاقان اور جسٹس ثاقب نثار کی یہ ملاقات ظاہر ہے کہ میاں نواز شریف کی اجازت بلکہ اصرار پر ہوئی ہوگی۔ ممکن ہے کہ اس کا نتیجہ میاں صاحب کے حق میں نکلے۔ مگر کیا اب نواز شریف اور مریم نواز کے لہجے کی تُندی میں فرق آئے گا؟ فی الحال تو نواز شریف اور ن لیگی رہنماؤں کے خلاف عدلیہ مخالف تقاریر پر عدالتوں میں درخواستوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ عدالت عظمیٰ نواز شریف اور مریم کو بیگم کلثوم نواز کی عیادت کے لیے لندن جانے کی اجازت دے دے تو یہ ایک مستحسن اقدام ہوگا۔