تن درستی ہزار نعمت ہے

574

ڈاکٹر حسن خالد زبیری

بدن کی صفائی لازمی

آپ اپنے پورے جسم کا جائزہ لیجیے اور غور سے دیکھیے کہ کیا سچ مچ آپ کے بدن کی جلد صاف ستھری ہے۔ اچھی صحت قائم رکھنے کا دارومدار بڑی حد تک جلد کو میل کچیل اور گندگی سے صاف رکھنے پر ہے کیونکہ اگر جلد اپنا کام اچھی طرح انجام نہیں دیتی تو کوئی شخص مکمل  طور پر تندرست نہیں ہوسکتا۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ روزانہ غسل سے کوئی شخص نقصان اُٹھا کر ہی غفلت اختیار کرسکتا ہے، کیونکہ اس کے بُرے نتائج فوراً ہی ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ حقیقت اس سے بھی زیادہ ہے اس قسم کی غفلت سے ہمارا جسمانی نظام کمزور ہوجاتا ہے۔ جلد دراصل ایک قسم کی پمپنگ مشین ہے۔ اگر وہ اس حیثیت سے اپنے فعل انجام نہیں دے رہی ہے تو نتیجے کے طور پر جسم کے اندرونی اعضا خصوصاً جگر کو اس سے کہیں زیادہ کام کا بار برداشت کرنا پڑتا ہے جتنا قدرتی طور پر اسے انجام دینا چاہیے۔ ممکن ہے کہ یہ عضو کسی شخص کی نوجوانی کے زمانے میں کسی قسم کی شکایت کے بغیر ضرورت سے زیادہ انجام دیتا رہے لیکن کسی نہ کسی دن اس کے فعل کا جائزہ لینا ضروری ہوجائے گا۔
جلد جسم کی گرمی کو ضبط میں رکھتی ہے، جب یہ مناسب طور پر کام کرتی ہے تو جسم کے اندر سے زائد گرمی اور خون کو پسینہ کی گلٹیوں سے خارج کرتی رہتی ہے۔ درحقیقت یہ ایک زائد مادہ یا فضلات ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر انہیں جسم کے اندر ہی رہنے دیا جائے تو خون کے اندر زہر پیدا کردیتے ہیں جس کے نتیجے کے طور پر بیماری نمودار ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جو شخص جسم کی مکمل صفائی سے غفلت اختیار کرتا ہے اُسے زندگی کا ادھورا لطف حاصل ہوتا ہے اس کا رنگ شفاف نہیں ہوگا اور آنکھیں بوجھل ہوں گی۔ دوسرے لفظوں میں کہنا چاہیے کہ روزانہ غسل کرنا ٹھوس تندرستی کے لیے ایک لازمی ضرورت ہے۔

صاف اور تازہ ہوا

تندرستی کے لیے سب سے زیادہ ضروری صاف ہوا ہے۔ ہوا زندگی کے لیے اس قدر ضروری ہے کہ اگر ہم پانچ منٹ سانس نہ لیں تو موت یقینی ہے۔
تپدق سے ہمارے ملک میں ہر سال لاکھوں افراد لقمہ اجل بنتے ہیں۔ تپدق کا بنیادی سبب حسب ضرورت صاف ہوا کا نہ ملنا ہی ہے۔ ہم میں سے بیشتر لوگ ادھورا سانس لیتے ہیں اس سے ہمارے پھیپھڑے اتنے مضبوط نہیں ہوتے جتنے ہونے چاہییں اور پھر وہ تپدق کا شکار ہوجاتے ہیں، ہوا خون کی غلاظت کو جلاتی ہے، ہوا پھیپھڑوں کے ذریعے ہی جسم میں پہنچتی ہے۔ کمزور پھیپھڑے مناسب مقدار میں ہوا نہیں کھینچ سکتے اور ہمارا خون خراب ہی رہ جاتا ہے۔
صبح اُٹھتے ہی صاف اور کھلی ہوا میں سات آٹھ دفعہ لمبے لمبے سانس لیجیے، کھڑکیاں ہمیشہ کھول کر سوئیں۔ کھلی ہوا میں سونا سب سے اچھا ہے۔ لمبا سانس تندرستی لاتا ہے۔ خاص طور پر سائنس میں اس کی بہت تعریف کی گئی ہے۔
کہیں کھلی جگہ میں گھومنے نکل جائیں، چلیں، دوڑیں، بچوں کی طرح اچھلیں کودیں۔ صبح کا گھومنا شام کی سیر سے 100 گنا زیادہ مفید ہے۔ اس وقت گرد و غبار نہیں ہوتا، پھر سویرے کی ہوا صاف ہوتی ہے۔ اس صاف ستھری ہلکی ہوا کو خوب پیو، یہ پھیپھڑوں کو طاقت دیتا، دل کو مضبوط کرتا اور خون کی گردش کو ٹھیک طور پر جاری رکھتا ہے۔ گھومتے وقت پورے یقین کے ساتھ سوچیے کہ آپ کے ہر ایک عضو میں نیا تازہ لال خون تیزی سے دوڑ رہا ہے۔ نئی پھرتی آرہی ہے۔
گھومتے وقت ہمیشہ اچھے خیالات کو دل میں جگہ دیجیے۔ کسی برے انتقام یا حسد کے جذبہ سے دل میلا نہ ہونے دیجیے۔ آپ میں جو محبت اور ہمدردی ہے اسے پھیلنے دیجیے، اوپر آنے دیجیے، چاروں طرف چھانے دیجیے، اس میں خرچ کوڑی کا بھی نہیں ہے، یہ کوئی پوشیدہ نسخہ نہیں ہے، ہر آدمی اسے کرسکتا ہے آزما کر دیکھیے۔ آپ کی مٹی کی کایا سونے کی ہوجائے گی۔ دل اور داغ مضبوط اور کشادہ ہوگا، تندرستی اور خوبصورتی بہت دنوں تک قائم رہے گی اور وہ جوانی جو زندگی کو خوابوں میں لیے پھرتی ہے جلد آپ کا ساتھ نہ چھوڑے گی اور اگر آپ سے روٹھ کر دور جاچکی ہے تو لوٹ آئے گی۔

خوش رہنا زندگی کی علامت

زندگی زندہ دلی کا نام ہے۔ خوشی سے خون سوا گنا ہوجاتا ہے۔
راج دربار میں بھی ہنسانے والے آدمی بہت ضروری سمجھ کر رکھے جاتے تھے، بیربل کا نام آپ نے ضرور سنا ہوگا۔ جب بادشاہ کام کرتے کرتے تھک جاتے تھے تو بیربل کو بلاتے اور ایسے سوال کرتے کہ بیربل کے جواب سے سبھی درباری ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوجاتے۔
ہنس مکھ ہونا زندگی کی بہت بڑی نعمت ہے اس سے آدمی کو خود بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ ہنسنے سے کھانا ہضم ہوتا ہے، پیٹ کی آنتوں کو طاقت ملتی ہے، مگر ہنسنا کھل کر ہونا چاہیے۔ جس سے پیٹ میں بل پڑجائیں اور سانس کا عمل بھی زور 5aسے ہونے لگے۔ چہرہ سرخ ہوجائے۔ یاد رکھیے ہمیشہ جوان رہنے کا نسخہ ہے۔پہلے کے لوگ دل کے بہلائو میں کبھی پیچھے نہیں رہے وہ خوب ہنستے تھے، ملک بھر کا بوجھ سر پر تھا تو بھی وہ ہمیشہ خوش رہتے تھے۔
حال ہی میں معالجین اور ماہرین نفسیات نے ہنسنے کے متعلق جو تحقیقات کی ہیں ان سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ہماری ہنسی واقعی ہماری صحت کو بہتر بنانے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے بہترین دوا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی ذہنی یا جسمانی نقص یا کسی اخلاقی پابندی کی وجہ سے اپنی خوشی کا اظہار اپنے پُرزور قہقہوں سے نہیں کرسکتا تو وہ یقینا کسی شدید جسمانی یا ذہنی عارضے میں مبتلا ہے۔ جدید میڈیکل سائنس کی نظر میں ایسا شخص صحت کے اعتبار سے قابل اعتماد نہیں ہے، جو ہنس نہیں سکتا وہ چاہے اس کے اندر کسی مرض کی اور کوئی علامت موجود نہ ہو، لیکن اس کی حالت کسی مریض سے کم توجہ کی محتاج نہیں ہے۔
ہنسی پر اگر صرف جسمانی نقطہ نظر سے بھی غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ خوب اچھی طرح ہنسنے سے ہمارے اعصاب اور ہمارے جسم کا تنائو حیرت انگیز طریقہ پر دور ہوجاتا ہے۔ خصوصاً معدے اور سینے کے لیے ہنسنا نہایت مفید ہے۔

ہنسی سیکڑوں دواؤں کے برابر ہے

جب آپ خوب زور سے ہنستے ہیں تو گویا اپنے جسم کو ایک نئی زندگی دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے دنیا میں آج بھی جھوٹی شان اور اس کی نمائش موجود ہے اور یہی نہیں بلکہ بچوں کو آج بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ کھلکھلا کر ہنسنا خلاف تہذیب ہے، درحقیقت بہت سے لوگ آج کل بھی برطانیہ کے اس رئیس کے مقولہ کی پیروی کرتے ہیں جس نے اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کی تھی کہ زور زور سے ہنسنے سے زیادہ بُری کوئی چیز نہیں ہے، حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ ہنسی اگر زور کی نہ ہو تو اس سے ہنسنے والے یا اس کے سننے والے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔

زندگی بڑھانے کا نسخہ

ایک کتاب ڈاکٹر ہوف لینڈ نے لکھی ہے جس کا نام ’زندگی بڑھانے کا نسخہ‘ رکھا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ہنسی بہت عمدہ چیز ہے اور ہاضمے کے لیے تو اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔ ایک بیمار کے لیے نہیں بلکہ تمام انسانی نفوس کے لیے وہ ایک بیش قیمت جوہر ہے۔ ہنسی تمام بدنی حرکات کا ایک بہت زبردست اور صحت بخش اظہار ہے، اس لیے کہ اس سے ایک ہی وقت میں روح اور جسم دونوں کو فرحت اور خوشی ہوتی ہے۔ ہنسی خون کے دوران کو تیز کرتی ہے اور پسینہ زیادہ لاتی ہے۔ ایک اور بڑے مشہور و معروف ڈاکٹر مارشل کا قول ہے کہ ’اگر آپ عقلمند ہیں تو خوب ہنسا کیجیے‘۔
ڈاکٹر پاسکنڈ نے عرصہ دراز تک ڈیڑھ سو مریضوں پر تجربات کرنے کے بعد یہ رائے ظاہر کی ہے کہ ہنسی کی بدولت عضلات کا تنائو رفع ہوجاتا ہے اور ہر رگ اور ریشہ کو آرام آجاتا ہے۔
اب یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ ہنسنا اور دل کھول کر ہنسنا بہترین ورزش ہے، جس کی بدولت ہماری غذا اچھی طرح ہضم ہوتی ہے اور ہماری تندرستی ترقی کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے چہرے سے لے کر ہمارے پیٹ تک کے تمام عضلات اور صرف عضلات ہی نہیں بلکہ وہ تمام چھوٹے چھوٹے غدود بھی جو حلق سے لے کر پیٹ تک واقع ہیں زندگی کی ہنسی کی بدولت حرکت میں آجاتے ہیں اور کون نہیں جانتا کہ ان ہی غدودوں کی نشوونما پر ہماری تندرستی اور ہمارے جسم کی نشوونما ہے۔ قدرت نے چھوٹے بچوں کو خواہ مخواہ بھی ہر وقت شور مچاتے رہنے اور زبردستی بلا کسی سبب کے ہنسے جانے کی عادت بخش ہے، اسی لیے کہ یہ ہنسی اور زور زور سے سانس لینا ان کے غدودوں میں تحریک پہنچا کر اُن کی رطوبت کو زیادہ کرتا ہے اور ان کا جسم دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا رہتا ہے۔
صرف ہمارے ملک ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں یہ دستور ہے کہ بوڑھے ہوجانے پر لوگ ذرا ضرورت سے زیادہ سنجیدہ ہوجاتے ہیں اور ہنسنا تقریباً چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اس عمر میں انہیں جوانوں سے زیادہ ہنستے رہنے اور انتہائی خوش و خرمی میں دن گزارنے کی ضرورت ہے کیونکہ جوان تو چل پھر کر اور بھاگ دوڑ کر بھی ورزش کرلیا کرتے ہیں لیکن آرام کرسیوں پر بیٹھے یا مسہریوں پر پڑے پڑے غذا کھانے والے بوڑھوں کے لیے اس کے سوا اور کوئی ورزش نہیں ہے۔ دنیا میں تلاش کرنے کے باوجود ایک بھی ایسا بوڑھا شاید نہ مل سکے جسے دوبارہ جوان بننے کی تمنا نہ ہو اور یہ بالکل ایک حقیقت ہے کہ حکیموں اور ڈاکٹروں کی آمدنی کا بیشتر حصہ انہی جوانی کے آرزو مندوں کی جیب سے آتا ہے۔ کاش انہیں یہ معلوم ہوجاتا کہ پھر سے جوان ہونے کا سب سے بڑا ذریعہ اور سب سے زیادہ کار آمد ٹوٹکا یہی ہے کہ وہ نوجوان اور بچوں کی صحبت میں اپنا بیشتر وقت گزاریں اور ہر وقت بچوں ہی کی طرح ہنستے اور خوش ہوتے رہیں۔ بالکل نوجوانوں کا سا اپنا مزاج بنالیں کہ بات بات پر ہنسی آجائے اور غم، غصے، فکر، بغض اور حسد کو کبھی اپنے پاس نہ بھٹکنے دیں۔ اس طرح عضلات اور غدودوں میں ان کے قہقہے تحریک پہنچائیں گے اور دل کی خوشی انہیں صحت مند بنادے گی اور وہ صحیح معنوں میں اگر بالکل جوان نہیں، تب بھی اپنی موجودہ عمر سے کم از کم بیس سال چھوٹے دکھائی دینے لگیں گے۔