سینیٹ کے الیکشن ہوچکے ہیں مگر سیاسی اُفق ابھی تک اَبر آلود ہے۔ ممکن ہے عام انتخابات کے بعد سیاسی دھند صاف ہوجائے مگر یہ حقیقت واضح ہے کہ سینیٹ میں صادق آگیا ہے اور امین کی تلاش ہورہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ صادق و امین کی تلاش کون کررہا ہے؟۔ قابل غور امر یہ بھی ہے کہ شریف فیملی کی تلاشی کا اس تلاش سے کیا تعلق ہے؟۔ مئی 2018ء کے بعد نگراں حکومت قائم ہوجائے گی تو مقتدر قوتوں کے مقاصد عیاں ہوجائیں گے اور یہ حقیقت بھی نمایاں طور پر سامنے آجائے گی کہ ملک و قوم کا مستقبل کیا ہے؟۔
سینیٹ کے انتخابات کو آصف علی زرداری کا سیاسی کرشمہ قرار دیا جارہا ہے، ان کے فرزند ارجمند بلاول زرداری بھی اسے اپنی بہت بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں مگر حالات اور واقعات کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات کو ایک طے شدہ منصوبہ قرار دینے والوں کی بھی کمی نہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دال میں کچھ کچھ کالا نہیں ساری دال ہی کالی ہے۔ سیاسی مبصرین اور سیاست دان مارشل لا پر تبرا کرنا کبھی نہیں بھولتے مگر پاکستان میں نگراں حکومت کے بارے میں کبھی نہیں بولتے کبھی نہیں سوچتے جو لوگ وزیراعظم نہیں بن سکتے وہ نگراں وزیراعظم بننے کے خواہش مند ہیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ نگراں حکومت کیوں بنائی جاتی ہے، جمہوری نظام میں اس کی کیا حیثیت ہے؟ شنید ہے نگرانی کے صلے میں نگراں وزیراعظم کو وزیراعظم جیسی مراعات اور سہولتیں بھی دی جاتی ہیں۔ قومی خزانے کے اس بے رحمانہ سلوک پر کوئی بھی احتجاج نہیں کرتا۔ نگراں حکومت تو بھارت میں بھی نہیں بنتی۔ نگراں حکومت حزب اختلاف کے مشورے سے تشکیل پاتی ہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف سارے اختلافات بھلا کر ایسی نگراں حکومت بناتی ہیں جو ان کے مفادات اور تحفظات کا تحفظ کرے۔ ساری دنیا میں حکومت کی مدت ختم ہوتے ہی الیکشن کرائے جاتے ہیں مگر وطن عزیز کا باوا آدم ہی نرالا ہے یہاں ہر اس کام کو فوقیت دی جاتی ہے جو قوم کا وقت اور پیسا برباد کرنے کا باعث بنے۔
عدلیہ کی ذمے داری ہے کہ وہ قومی خزانے کا تحفظ کرے، ملک کو غیر مستحکم اور انتشار پھیلانے والوں کا احتساب کرے، نگراں حکومت بنانے کے لیے سیاست کار جو تماشا لگاتے ہیں اس کا سدباب اور تدارک بھی عدلیہ کی ذمے داری ہے مگر اسے یہ سوچنے کی فرصت ہی نہیں تاک جھانک کرنے والے بہت مصروف ہوتے ہیں۔ سیاست کا مقصد قوم کو بند گلی سے نکالنا ہوتا ہے مگر وطن عزیز میں رائج سیاست قوم کو بند گلی میں بھٹکانے کا کوئی بھی موقع نہیں گنواتی اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیاست دان خود بند گلی کے باسی ہیں، اپنے مفادات اور تحفظات کے لیے بند گلی میں بھٹک رہے ہیں، بھٹکے ہوئے لوگ بھٹکاتے ہیں رہنمائی نہیں کرتے بھٹکاتے کہ وہ رہنمائی کے اہل ہی نہیں ہوتے۔ جب تک ملک و قوم کو بند گلی کے سیاست کاروں سے نجات نہیں مل جاتی خوش حالی اور استحکام کی توقع رکھنا رات کو روزہ رکھنے کے مترادف ہے۔
مقتدر قوتوں کو اہل بصیرت کی اس بات پر توجہ دینا چاہیے اور غور کرنا چاہیے کہ سینیٹ الیکشن میں جمہوری عمل کو شکست ہوئی ہے اور مفاد پرست قوتیں کامیاب ہوئی ہیں۔ انہوں نے اپنا ہدف حاصل کرلیا ہے اور اب ’’امین‘‘ کی تلاش ہے اور اگر ’’صادق‘‘ کے بعد ’’امین‘‘ بھی آگیا تو جمہوریت بچہ جمہورا بن جائے گی۔ ہمارے خیال میں یہ کوئی انکشاف نہیں ہے کیوں کہ بچہ جمہورا کو جمہوریت کے لبادے میں چھپا دیا جائے تو وہ جمہوریت نہیں بن جاتا، بچہ جمہورا ہی رہتا ہے۔ یہ کیسی بدنصیبی ہے، کیسا المیہ ہے کہ وطن عزیز میں جمہوریت کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا، جنرل ہوں یا سیاست دان سبھی خود کو عقل کل سمجھتے ہیں، وہ ایوان اقتدار میں ہوں یا جیل میں قومی خزانے پر بوجھ بنے رہتے ہیں۔ خدا جانے! ملک و قوم کو اس بوجھ سے کب نجات ملے گی، آثار و قرائن بتارہے ہیں کہ یہ سیاسی بوجھ قوم کا مقسوم بن چکا ہے سو، قوم ہمیشہ اس بوجھ تلے دبی رہے گی، سیاست کاروں کا وجود ایک ایسا عفریت ہے جو ملکی استحکام اور قوم کی خوش حالی کو ہڑپ کرتا رہے گا جب تک مخلص اور دیانت دار قیادت نہیں آتی خوش حالی کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔