ڈاکٹر خان کو عبوری وزیراعظم بنانے کی تجویز؟

364

موجودہ حکومت آئین کے مطابق اپنی مدت پوری کرنے والی ہے، پھر ایک غیر جانبدار عبوری حکومت قائم کی جائے گی جو اپنی نگرانی میں عام انتخابات کرواکے منتخب عوامی نمائندوں کو اقتدار منتقل کرے گی، عبوری حکومت کے قیام کے لیے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے صلاح مشورہ جاری ہے اور خورشید شاہ بھی اپوزیشن لیڈروں کا اجلاس بلا کر عبوری وزیراعظم کے لیے کوئی متفقہ نام حکومت کو پیش کرنا چاہتے ہیں، ایسے میں امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق نے تجویز پیش کی ہے کہ ممتاز ایٹمی سائنسدان محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو عبوری وزیراعظم بنایا جائے۔ ان کی اس تجویز پر کوئی موافق یا مخالف ردعمل سامنے نہیں آیا، البتہ خود ڈاکٹر خان نے اس پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے عبوری وزیراعظم بنانے کے لیے پہلے امریکا سے منظوری لینا پڑے گی، امریکا تو میری کسی بھی نقل و حرکت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ڈاکٹر خان نے عبوری وزیراعظم کے عہدے کے لیے اپنی عدم دلچسپی ظاہر کی ہے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ کانٹوں بھرا تاج انہیں راس نہیں آئے گا۔ عبوری وزیراعظم کے تقرر کا فیصلہ تو خیر وقت آنے پر ہوجائے گا لیکن محترم سراج الحق کی تجویز نے یادوں کے بہت سے دریچے کھول دیے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے پر ڈاکٹر خان پر بُری طرح خار کھائے بیٹھا ہے، اس کا بس چلے تو وہ ابھی انہیں موت کے گھاٹ اتار دے، لیکن بے بس ہے۔ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور اس کی ایٹمی صلاحیت کو ہر قیمت پر سلب کرنا چاہتا ہے لیکن اس کا بس نہیں چل رہا اور خود قدرت پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کی حفاظت کررہی ہے لیکن نائن الیون کے بعد پاکستان پر ایک وقت ایسا آیا تھا جب امریکا نے پاکستان کو بُری طرح اپنے شکنجے میں جکڑ لیا تھا۔ اُس وقت پاکستان پر جنرل پرویز مشرف کی حکمرانی تھی جو اگرچہ ڈرتا ورتا کسی سے نہیں تھا لیکن امریکا سے بُری طرح خائف تھا۔ چناں چہ امریکا نے جنرل پرویز مشرف کی اس کیفیت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ڈاکٹر خان پر ایٹمی ٹیکنالوجی اسمگل کرنے کا الزام لگا کر انہیں اپنے حوالے کرنے کا مطالبہ کردیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف امریکا کے اس مطالبے کو ناں کرنے کی جرأت نہ کرسکا۔ اس نے سر تسلیم خم کردیا اور امریکی طیارہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو لینے کے لیے چکلالہ ائر بیس پر پہنچ گیا۔ ظفر اللہ جمالی اس وقت وزیراعظم تھے اور ڈاکٹر خان کی امریکا حوالگی کے لیے ان کی منظوری ضروری تھی لیکن وزیراعظم جمالی تمام تر دباؤ کے باوجود اس بے حمتی پر آمادہ نہ ہوئے انہوں نے ڈاکٹر خان کو امریکا کے حوالے کرنے کے حکم پر دستخط کرنے سے انکار کردیا اور طیارہ ائر بیس پر طویل انتظار کے بعد واپس چلا گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹر خان سے اپنی اس بے عزتی کا بدلہ یوں لیا کہ انہیں ٹیلیویژن پر لا کر ان سے اعتراف جرم کروایا اور ان سے معافی منگوائی۔ حالاں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ابتدا ہی سے فوج کی نگرانی میں تھا، ڈاکٹر خان کی ذمے داری بس یہ تھی کہ وہ اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ انہوں نے یہ ذمے داری نہایت لگن اور دیانتداری سے پوری کی اور ایٹمی صلاحیت کے حصول میں کسی مشکل کو حائل نہ ہونے دیا۔ امریکا اس حقیقت کو جانتا تھا، وہ ابتدا ہی سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی جاسوسی پر لگا ہوا تھا لیکن یہ ڈاکٹر خان اور ان کی ٹیم کا کمال ہے کہ انہوں نے امریکا کو ذرا سی بھی سن گن نہ لگنے دی اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اس وقت ظاہر ہوئی جب وہ اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ پاکستان کے غیر اعلانیہ ایٹمی قوت بن جانے کے بعد امریکا کی پوری کوشش یہ رہی کہ پاکستان اپنی ایٹمی قوت کا کھلم کھلا اعلان کرنے کے بجائے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کردے اور غیر ایٹمی ملکوں کی صف میں واپس چلا جائے۔ اس مقصد کے لیے اس نے سول حکومتوں پر بھی دباؤ ڈالا اور فوجی قیادت کو بھی زیر اثر لانے کی کوشش کی لیکن دونوں محاذوں پر اسے ناکامی ہوئی۔ شاید یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا اور پاکستان اسرائیل کی طرح اپنی ایٹمی قوت کا کھلم کھلا اعلان نہ کرپاتا کہ خود امریکا کے اسٹرٹیجک پارٹنر بھارت نے 1998ء میں ایٹمی دھماکے کرکے اسے یہ موقع فراہم کردیا اور پاکستان نے بھارت کے چار ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں پانچ ایٹمی دھماکے کرکے اپنی برتری ثابت کردی۔
بلاشبہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا کارنامہ سائنسدانوں کے ٹیم ورک کا نتیجہ تھا لیکن اس میں بنیادی کردار ڈاکٹر خان کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا ان پر ہاتھ ڈالنا چاہتا تھا وہ اس میں تو ناکام رہا لیکن جنرل پرویز مشرف نے امریکا کی تابعداری میں ڈاکٹر خان کو رسوا کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی، انہیں اپنے ادارے کی سربراہی سے ہٹایا گیا، ان سے ناکردہ گناہوں کی معافی منگوائی گئی، انہیں گھر میں نظر بند کیا گیا اور سیکورٹی کے نام پر ان کی نقل و حرکت پر پابندی لگائی گئی۔ حالاں کہ حق یہ تھا کہ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر بٹھایا جاتا، آخر بھارت نے ایک مسلمان ایٹمی سائنسدان عبدالکلام کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اسے صدر بنایا تھا تو پاکستان میں ایسا کیوں ممکن نہ تھا۔ بہرکیف محترم سراج الحق نے ڈاکٹر خان سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں عبوری وزیراعظم بنانے کی تجویز دی ہے تو یہ بھی بھاری پتھر چومنے کے مترادف ہے یقیناًاس تجویز سے امریکا کی پیشانی پر بل پڑ گیا ہوگا، خود ڈاکٹر خان نے بھی یہ منصب قبول کرنے سے انکار کردیا ہے، ان کے شایان شان منصب یہی ہے کہ انہیں ملک کا آئندہ صدر بنایا جائے۔