ان دنوں سب کی دلچسپی پی ایس پی سمیت ایم کیو ایم کے تمام ہی دھڑوں کے مستقبل پر ہے۔ تازہ تقسیم کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار اور ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اپنے حمایتیوں کے ساتھ دو واضح گروپوں پر مشتمل ایک ایم کیو ایم کے دعویدار ہیں۔ دونوں کی خواہش ہے کہ نام اور نشان پتنگ ان کے پاس رہے۔ یہ وہ ایم کیو ایم ہے جسے لندن میں بیٹھے الطاف حسین نے قائم کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب گھر کا سربراہ خراب ہو تو پورے خاندان پر اس کا اثر پڑتا۔ اکثر و بیش تر باپ کی چھوڑی ہوئی جائداد پر تنازعات ہوا کرتے ہیں۔
ایم کیو ایم کے دونوں منقسم حصوں کے رہنماؤں کا بھی اسی طرح کا جھگڑا ہے۔ ایسے اختلافات میں عدالت تک بات جا پہنچتی ہے اور یہاں بھی یہی ہورہا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے متحدہ قومی موومنٹ کی دعویداری کے کیس کو سن کر 27 مارچ کو بہادرآباد گروپ کے خالد مقبول صدیقی کے حق میں فیصلہ دیا تو ڈاکٹر فاروق ستار اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمٰی میں چلے گئے۔
متحدہ جب تک متحد رہی اور الطاف کے کنٹرول میں رہی اس وقت تک معاملات بگڑنے سے پہلے سدھر جایا کرتے تھے۔ وہ بھی کوئی اچھا نہیں ہوا کرتا تھا بس ایک طرف طاقت تھی تو دوسری طرف صرف خوف۔ نتیجے میں اس زمانے میں نہ کوئی اختلافات کا پرچار کرتا تھا اور نہ عدالت میں جاتا تھا۔ مگر اب دونوں طرف کے لیڈرز ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہوکر مرض کو تو سمجھ رہے ہیں مگر علاج حکمت سے کرنا چاہتے ہیں۔ حالاں کہ انہیں معلوم ہے کہ ان کی تحریک کو کینسر ہوچکا ہے۔ اس کا علاج جسم کے ناسور زدہ حصے کو الگ کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مطلب یہ ممکن ہی نہیں کہ دونوں گروپوں کو دوبارہ یکجا کیا جاسکے۔ اس کی بہت سی وجوہ میں مسلسل کیے جانے والی اغلاط بھی ہیں۔
متحدہ میں گروپ بندی کا سلسلہ مہاجر قومی موومنٹ کے دور ہی میں شروع ہوچکا تھا جب 1991 میں آفاق احمد اور عامر خان اسے درست کرنے میں ناکامی پر الگ ہوگئے تھے۔ آفاق اور عامر کی بغاوت کے باوجود الطاف حسین کی ایم کیو ایم مختلف دوائیوں سے چلتی رہی عام لوگ سمجھتے تھے کہ وہ پھل پھول رہی ہے مگر سچ تو یہی تھا کہ یہ اندر ہی اندر ’’کھوکھلی‘‘ ہوتی جارہی تھی۔
نتیجے میں مصطفی کمال نے بھی کمال ہوشیاری سے اس سے دور ہونے کا فیصلہ کیا۔ میرا خیال ہے کہ مصطفی کمال کو اپنی تحریک متحدہ کی بیماری کا اس وقت یقین ہوا ہوگا جب وہ ڈاکٹر عمران فاروق کی تدفین کے موقع پر اپنے سیکڑوں ساتھیوں کے درمیان موجود ہونے کے باوجود شہدا قبرستان کے قریب تنہا کھڑے تھے انہیں اپنے ’’روحانی باپ‘‘ الطاف حسین کے حکم پر قبرستان میں بھی جانے کی اجازت نہیں تھی۔
بعدازاں وہ دبئی چلے گئے لیکن جیسے 2013 میں عام انتخابات کی مہم کے دوران تحریک انصاف کی طرف سے کلفٹن تین تلوار پر ایم کیو ایم کے خلاف ہونے والے احتجاج سے بیمار ایم کیو ایم کے زخم رات کی تاریکی میں ابھرنے لگے تو انیس قائم خانی ان ’’زخموں‘‘ کی تاب نہ لاکر اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنے آپ کو اس مہلک بیماری سے دور کرکے دبئی چلے گئے۔ سنا ہے بیماری نے انہیں گالی دی تھی۔ حالاں کہ بیماری بھی ایک گالی سے کم نہیں ہوتی۔ اس بیماری سے دور ہونے کے تقریباً دو سال بعد اچانک ہی مصطفی کمال اور انیس قائم خانی 3 مارچ 2016 کو کراچی واپس آئے اور چند دن بعد اپنی الگ پارٹی ’’پاک سر زمین پارٹی‘‘ کے قیام کا اعلان کردیا۔ اب وہ اپنے ساتھ متحدہ کے منتشر دھڑوں کو ملانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ کوشش اور خواہش تو مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد اور متحدہ پیر کالونی کے ڈاکٹر فاروق ستار کی بھی ہے۔ مگر۔۔۔
خیر ذکر ہورہا تھا ایم کیو ایم کے منقسم تازہ دھڑوں بہادرآباد اور پیر کالونی کا۔ ایم کیو ایم کے اس گروپ کے لیڈرز بلکہ گروپ بھی دراصل اسی متحدہ نے جنم دیے ہیں جو اب پاکستان سے زیادہ برطانیہ اور بھارت کا وفادار ہے۔ واقف حال لوگ اس بات سے متفق ہوں گے کہ الطاف حسین کی متحدہ میں بھی دو واضح گروپ تھے۔ پاک سر زمین پارٹی کا قیام بھی اسی متحدہ کا باعث کہلائے گا چاہے برے حالات سے نوجوانوں کو آزادی دلانے کے لیے ہی ہو۔ متحدہ کے بانی الطاف حسین، آفاق احمد کی مہاجر قومی موومنٹ حقیقی پر یہ الزام لگاتے رہے کہ یہ ایجنسیوں نے ان کے اور ان کی ایم کیو ایم کے خلاف سازش کے لیے قائم کی ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ آفاق احمد نے جو بات 1992 میں کہی تھی وہ آج پاک سر زمین پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان سے وابستہ ہر لیڈر کہہ رہا ہے۔ جب کہ الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف 22 اگست 2016 کو نعرہ لگاکر خود بھی یہ ثبوت دیا کہ وہ بھارت کی زبان بولتے ہیں۔ دراصل یہی تو اصل بیماری تھی جس کی وباء سے کراچی اور دیگر شہر تباہ ہورہے تھے۔ عام خیال یہی ہے کہ اہم اور حساس اداروں نے ایم کیو ایم کو نادانستہ طور پر زہر پھیلانے کے قابل بنائے جانے سے بہت کچھ سیکھ اور سمجھ لیا ہے اس لیے یقین ہے کہ ان اداروں نے اپنی غلطیوں کا مداوا کرتے ہوئے متحدہ کے ٹکڑے کرنے، کسی سیاسی جماعت کو آئندہ سیاست کی آڑ میں سنگین جرائم کرنے کا موقع فراہم کرنے اور اسلحہ کا غیر قانونی استعمال تو کجا نمائش کرنے اور اسے رکھنے تک کی بھی اجازت نہیں دے گی۔ یہ اس لیے بھی ہوگا کہ یہی اسلحہ کے زور پر خامیوں سے بھرپور سیاسی جماعتیں ووٹرز کو ڈراتی رہی ہیں۔ ایم کیو ایم کی تقسیم پر شادیانے بجانے والی صوبے کی بڑی جماعت میں بھی تقسیم کا عمل شروع ہونے کی اطلاعات ہیں۔
بہرحال کراچی ہی نہیں ملک بھر سے اسلحہ کی سیاست یا سیاست کے لیے اسلحہ کا استعمال بند ہونے کو ہے کیوں کہ بقول آرمی چیف جنرل باجوہ کے ’’اسلحہ رکھنے کی ضرورت لوگوں کو نہیں بلکہ ریاست کو ہے‘‘۔
جب اسلحہ بلا تفریق سب ہی خاص و عام لوگوں سے چھین کر ریاست اپنے پاس محفوظ کرلے گی تو ملک بھی مضبوط ہوگا اور امن و امان بھی رہے گا ان شاء اللہ۔ کراچی کی سیاست کے حوالے سے یہ تجزیہ بھی کیا جارہا ہے کہ ملک کے اس سب سے بڑے شہر میں یہاں کی ہی جماعتوں کو اپنی اپنی سیٹیں حاصل کرنے کا موقع فراہم کرنے کے لیے شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے گا۔ تاکہ کراچی کی جماعتیں الگ الگ ہوکر بھی ایک ہی جگہ رہ سکے۔