پاکستان اسٹیل اور پی آئی اے کی نج کاری کے منصوبوں کو ختم کیا جائے

670

is (15)
کراچی : ٹریڈ یونینز اور مزدور وں تنظیموں کے رہنماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان اسٹیل مل اور پی آئی اے کی نج کاری کے منصوبوں کو ختم کیا جائے اور 1988میں آئی ایم ایف سے کیا گیا معاہدہ منظر عام پر لایا جائے۔ اس منصوبے کو پارلیمینٹ میں پیش کیا جائے تاکہ اس کو رد کرکے نج کاری کمیشن کو ختم کیا جائے۔ مزدور اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے رہنما ؤں نے یہ اظہار پائلر کے زیر اہتمام آرٹس کاؤنسل میں جمعرات کے روزپی آئی اے اور اسٹیل مل کی نج کاری کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل بنانے کے لیے بلائے گئے ایک مشاورتی اجلاس کے موقع پر منظور کی گئی قرارداد میں کیا۔ اجلاس کی صدارت سابق سینٹ چیئرمین سینیٹرمیاں رضا ربانی نے کی اور اسٹیل مل اور پی آئی اے کی یونینز، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے موجودہ حکومت کی نج کاری کے پلان کو رد کرتے ہوئے اسے ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
میاں رضا ربانی نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ پی آئی اے کی نج کاری جلد متوقع ہے، البتہ اسٹیل مل کی نج کاری میں کچھ وقت لگ سکتا ہے، کیوں کہ اسٹیل مل کے اثاثوں اور ذمہ داریوں کا ابھی تک تخمینہ نہیں ہوا، جو ہوا تھا وہ کافی پرانا ہے۔ اس لیے عام انتخا بات تک اسٹیل مل کی نج کاری نہیں ہوسکتی، البتہ انہوں نے کہا کہ حکومت پی آئی اے کی نج کاری کرسکتی ہے، جس کے لیے وہ بہت جلدی کرہے ہیں۔ انہوں نے ایئرلائین کی تمام ٹریڈ یونینز پر زور دیا کہ وہ آئندہ ماہ ہونے والے ریفرینڈم میں نج کاری کے خلاف ایک نکتے پر متفق ہوجائیں اور اس کو اپنے منشور کا حصہ بنالیں۔
انہوں نے کہا کہ تمام مزدوروں کی یکجہتی بہت ضرور ہے، مگر اس کے لیے ایک ہی کمپنی میں کام کرنے والے تمام مزدور وں کا اتحاد ہونا اولیت رکھتا ہے۔
پائلر کے سربراہ کرامت علی نے کہا کہ سرکاری اداروں کی نج کاری 1988میں آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کے تحت ہوئی تھی، جو کہ ابھی تک رائج ہے۔ یہ معاہدہ غیر جمہوری اور غیر قانونی عبوری حکومت نے کیا تھا ۔ یہ حکومت سابق فوجی سربراہ ضیاء الحق کے مرنے کے بعد قائم کی گئی تھی، جس کا کوئی وزیر اعظم مقرر نہیں کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا اس معاہدے کے تحت پاکستان میں سرکاری شعبے میں کام کرنے والی کئی صنعتیں اور کاروباری ادارے نجی شعبے کو بیچے گئے، جس کی وجہ سے لاکھوں مزدور بے روزگار ہوگئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ نج کاری کا عمل دنیا میں کہیں بھی کامیاب نہیں ہوا ہے۔
کرامت علی نے کہا کہ تمام مزدور تنظیموں میں 1990کی دہائی کے دوران کی گئی نج کاری کے خلاف ایک منظم جدوجہد کی جس کے نتیجے ہیں حکومت نے واعدہ کیا کہ نج کاری کے نتیجے میں حاصل کی گئی رقم غربت کے خاتمے اور بیرونی قرضے اتارنے کے لیے استعمال میں لائی جائے گی، جس پر کبھی بھی عمل نہیں ہوا۔
دیگر مزدور رہنماؤں نے مزدور یکجہتی پر زور دیتے ہوئے پاکستان اسٹیل اور پی آئی اے کے مزدوروں کی مشترکہ تحریک بناکر ان اداروں کی نج کاری کے خلاف لائحہ عمل تشکیل دینے کا مشورہ دیا۔ سینئر مزدور رہنما لیاقت ساہی، حبیب الدین جنیدی، پاکستان فشرفوک فورم کے سربراہ محمد علی شاہ، عورت فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر مہناز رحمان، مرزا مقصود، عقیلہ ناز، عبدالحئی، فرحت پروین، مرزا شاہد بیگ اور دیگر رہنما ؤں نے اس موقع پر خطاب کیا ۔ آخر میں کئی قرارداد منظور کی گئیں ۔ ایک قرارداد میں پنجاب میں کسانوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی انجمن مزارعین پنجاب کی مکمل حمایت کی گئی۔ ایک اور قرارداد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ پی آئی اے اور اسٹیل مل کے ملازمین کے مسائل حل کیے جائیں۔ اسٹیل مل کے ملازمین کی پینشن و دیگر مراعات ادا کی جائیں۔