ایم کیو ایم بکھر رہی ہے

360

ایک دفعہ ایک انٹرویو میں الطاف حسین سے سوال کیا گیا کہ آپ کے بعد آپ کی جماعت میں کون ہے جو اس پارٹی کی قیادت سنبھالے گا، الطاف حسین نے کہا کہ ہم نے اجتماعی قیادت کا تصور دیا ہے۔ شاید الطاف حسین کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کی زندگی ہی میں اس کی پارٹی ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔ اس کے ذہن میں یہ بات رہی ہو کہ میرے مرنے کے بعد ایسی صورت حال ہو جائے کہ پارٹی کا وجود ہی ختم ہو جائے۔ لیکن اللہ نے اسے زندگی ہی میں یہ دکھا دیا کہ اس کی پارٹی سوکھے پتوں کی طرح بکھر رہی ہے۔ ایم کیو ایم حقیقی تو بہت پہلے وجود میں آئی یا لائی گئی لیکن اس کو عوامی پزیرائی نہ مل سکی بلکہ ہزاروں نوجوان آپس کی لڑائیوں میں قتل ہوگئے۔
جب ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر رینجرز نے چھاپا مارا اور وہاں پر اسلحہ کے علاوہ سو سے زاید کارکنان گرفتار ہوئے، اسی میں صحافی ولی خان بابر کے قتل پر جن دو افراد کو سزائے موت سنائی گئی تھی ان میں کا ایک مجرم بھی تھا۔ یہ سب لوگ آج تک رینجرز کی تحویل میں ہیں۔ اس سے قبل جب 2013 کے عام انتخابات ہوئے تو اس وقت ایم کیو ایم کی سیاسی پوزیشن انتہائی زوال کا شکار تھی لیکن ہمار ی ایجنسیوں کی ملی بھگت سے ایم کیو ایم کے مسلح لوگوں نے دوپہر کے بعد تمام پولنگ اسٹیشنوں پر قبضہ کرلیا اور مخالف امیدواروں کے پولنگ ایجنٹوں کو مار کر بھگا دیا اس کے بعد ہر پولنگ اسٹیشن پر مسلح کارکنان نے جعلی ووٹوں سے ڈبے بھرنے شروع کر دیے اسی طرح کی صورت حال دیکھتے ہوئے اس وقت کے الیکشن کمیشن کے سیکرٹری اشتیاق احمد نے یہ بیان دیا تھا کہ کراچی میں تو الیکشن ہی نہیں ہوئے، پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے اور افراتفری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے میں نے خود یہ دیکھا کہ پولنگ اسٹیشن سے بیلٹ باکس ان کے مسلح کارکنان باہر نکال کر لے آئے اور لیاقت آباد نمبر 10میں ایک گوشت والے کی دکان پر رکھ دیا اور ہر راہ چلتا ہوا فرد اس میں جعلی ووٹ بھگتاتا ہوا جارہا تھا بیلٹ پیپر کی بک بھی بلکہ اس کی کئی گڈیاں وہاں رکھی ہوئی تھیں۔ یہ ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے میں بڑے افسردہ دل کے ساتھ سوچ رہا تھا کہ اس مصیبت سے کیسے نجات ملے گی۔ اس طرح تو ہم کبھی انتخاب میں کامیاب نہ ہو سکیں گے۔
اس انتخاب کے کچھ عرصے بعد ہی نائن زیرو کا واقعہ ہو گیا الطاف حسین بدستور پارٹی کے سربراہ تھے انہوں نے اس واقعے پر شدید مذمت کا اظہار کیا ایم کیو ایم کے ستائے ہوئے لوگوں کو یہ اطمینان حاصل ہوا کہ اب اس تنظیم کے پر کاٹنے کا ہمارے ریاستی اداروں نے کوئی تہیہ کرلیا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ بھی نہیں کہ اس وقت فوج نے جرات مندانہ قدم اٹھایا کہ چین سے سی پیک کا جو معاہدہ ہو رہا ہے اس کے لیے ملک میں بالعموم اور صوبہ سندھ میں بالخصوص امن و امان کا قیام بہت ضروری ہے سندھ کے اندرونی علاقوں میں تو فل فرائی اور ہاف فرائی کی اصطلاح عام ہوئی اور اس کے چند ایک مظاہر سامنے آنے کے بعد شرپسند عناصر اور ان کے سہولت کار از خود راہ راست پر آنے لگے اور انہوں نے ریاستی اداروں کے سامنے اپنے آپ کو سرنڈر کرنا شروع کردیا۔
کراچی میں نائن زیرو پر چھاپے کے بعد ایم کیو ایم کے بہت سے کارکنان روپوش ہوگئے بڑی تعداد میں اسلحہ برآمد ہوا لیکن لندن کا کراچی میں کارکنان سے رابطہ قائم تھا اسی دوران ایک قومی اسمبلی کا ضمنی انتخاب بھی ہوا جس میں ایم کیو ایم واضح برتری کے ساتھ کامیاب ہوئی۔ 2015 میں بلدیاتی انتخاب ہوئے اس میں تمام سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا لیکن ایک بار پھر ایم کیو ایم کامیاب ہوئی۔ ایک طرف ایم کیو ایم کے خلاف ایک نرم آپریشن جاری تھا تو دوسری طرف ایم کیو ایم نے عوام سے اپنا رابطہ مضبوطی کے ساتھ برقراررکھا ہوا تھا۔
یہ سفر جاری تھا درمیان میں 22اگست 2016 آگیا یہ ایم کیو ایم کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا اس دن الطاف حسین نے کراچی میں کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مخالف نعرے لگائے نہ صرف نعرے لگائے بلکہ مظاہرین نے مختلف چینلوں پر توڑ پھوڑ بھی کی، اس کے نتیجے میں ریاستی ادارے متحرک ہوئے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں الطاف حسین کی میڈیا پر پابندی عائد کی گئی جو آج تک برقرار ہے فاروق ستار کو رینجرز نے اپنی تحویل میں لیا صبح جب ان کی رہائی ہوئی تو الطافی فاروق ستار سے ریاستی فاروق ستار بن چکے تھے۔ انہوں الطاف حسین سے اپنی لا تعلقی کا اعلان کیا اور ایم کیو ایم پاکستان سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا اپنے تمام جھنڈوں اور بینروں سے الطاف حسین کی تصویریں کاٹ کر نکال دی گئیں یہ وہی الطاف حسین تھے کہ جن کے بارے کوئی مخالفت میں اپنی زبان کھولتا تو اس کو خاموشی سے قبر میں اتار دیا جاتا کچھ عرصہ پہلے ہی لیاقت آباد میں ان کے ایک کارکن آصف ددن کا لیاقت آباد پل پر قتل ہوا وہ تنظیم کے اندر مشکوک ہو چکا تھا اس کی تدفین والے دن اس کے بہنوئی غصے میں الطاف حسین کو برا بھلا کہہ رہے تھے کہ یہ قتل الطاف حسین نے کروایا ہے تدفین میں شریک لوگوں نے ان سے کہا بھی کہ آپ خاموش رہیں لیکن وہ مسلسل بولتے رہے۔ اس واقع کے دوسرے دن عزیزآباد میں وہ اپنے گھر کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے کچھ لوگ بھی ان سے تعزیت کرنے کے لیے آئے ہوئے تھے کہ کچھ نامعلوم افراد آئے اور اندھادھند گولیاں برسا کر چلے گئے آصف ددن کے بہنوئی سمیت تین دیگر بے گناہ لوگ بھی اس میں قتل ہوگئے۔ کراچی شہر میں ایسے ان گنت واقعات ہوئے ہیں۔ لیکن 22اگست 2016 کے بعد جو ایم کیو ایم وجود میں آئی یا لائی گئی وہ مائنس الطاف حسین ہے ایم کیو ایم لندن نے اس ایم کیو ایم کو تسلیم نہیں کیا کراچی کی دیواروں پر یہ نعرے لکھے ہوئے نظر آئے کہ مہاجروں کے غدار عامر خان فاروق ستار۔ اس واقع کے بعد ایم کیو ایم عملاً چار دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایم کیو ایم حقیقی، پی ایس پی، ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن۔ حقیقی میں تو وہی چند گنے چنے لوگ ہیں ایک آفاق احمد کی شخصیت ہے جن کا کوئی سیاسی مستقبل نظر نہیں آتا، پی ایس اپی میں ایم کیو ایم کا وہ گرم خون شامل ہے جس نے ایم کیو ایم کی دہشت قائم کی ہوئی تھی یہ وہ کارکنان ہیں جن پر مقدمات ہیں اور وہ اس میں ریلیف چاہتے ہیں اس لیے وہ سب پی ایس پی کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے ہیں ایم کیو ایم پاکستان جس کے سربراہ فاروق ستار ہیں ان کے پاس اردو اسپیکنگ ووٹوں کی قوت ہے اور تنظیم بھی ہے ایم کیو ایم لندن کو عوامی حمایت تو حاصل ہے لیکن کراچی میں ان کی کوئی تنظیم نہیں ہے۔ سینیٹ کے انتخابات نے ایم کیو ایم پاکستان کے بھی دو گروپ بنا دیے ہیں ایک پی آئی بی گروپ جس کے سربراہ فاروق ستار ہیں دوسرے بہادرآباد گروپ جس کے سربراہ عامر خان ہیں ایک امید تو یہ ہے کہ یہ ایک ہوجائیں گے لیکن اگر نہ ہوئے تو ایم کیو ایم کے پانچ دھڑے ہو جائیں گے آئندہ انتخابات میں ہو سکتا ہے یہ پانچوں دھڑے اپنے اپنے امیدوار کھڑے کریں۔
ایک بات تو طے ہے کہ ایم کیو ایم کی وہ دہشت اور وحشت ختم ہو گئی جو اب سے تین سال قبل تھی ورنہ تحریک لبیک یا رسول اللہ لیاقت آباد ناظم آباد سمیت پورے کراچی اپنی ممبر سازی کے کیمپس نہیں لگا سکتی تھی۔ پی پی پی بھی اردو اسپیکنگ علاقوں میں اپنی ممبر سازی کے کیمپ نہیں لگا سکتی تھی آج ہر پارٹی کراچی میں ایم کیو ایم کے خلا کو پر کرنے کے لیے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ یہ صرف جماعت اسلامی ہے جس نے ایم کیو ایم کی دہشت کا مقابلہ کیا ہے اور وہی اس خلا کو پر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔