وزیر اعظم چیئر مین سینیٹ کے تعاقب میں

353

حکمران مسلم لیگ اور خاص طور پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ایوان بالا کے نو منتخب صدر نشین جناب محمد صادق سنجرانی کے بارے میں مسلسل کہ رہے ہیں کہ وہ خریدے گئے ووٹوں کی مدد اور پیسے کے زور پر منتخب ہوئے۔ شاہد خاقان کے بارے میں اب تک یہ تاثر تھا کہ وہ بڑے متحمل مزاج اور رکھ رکھاؤ والے شخص ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ ان پر پارٹی کے تاحیات قائد اور دیگر گرم مزاج ساتھیوں کا رنگ چڑھ رہا ہے۔ بلوچستان میں اس سے پہلے ن لیگ کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے سہارے چلتا کیاگیا پھر بلوچستان ہی سے سیاست میں ایک غیر معروف شخص کو چیئرمین سینیٹ منتخب کر لیا گیا۔ اس پر پوری مسلم لیگ ن کا تلملانا بجا ہے کیونکہ سینیٹ میں اکثریت ن لیگ کی تھی۔ ہر دل میں سلگتی ہوئی آگ شعلہ بن کر شاہد خاقان عباسی کے منہ سے بھی نکل رہی ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے لیے انہوں نے جس قسم کے الفاظ کا استعمال کیا اس سے وزیراعظم کا تاثر ہی خراب ہوا ہے۔ جہاں تک سینیٹروں کے ووٹ خریدنے کی بات ہے تو انہیں خوب معلوم ہوگا کہ اس میں ن لیگ اور اس کی حمایتی جماعتوں کے سینیٹر بھی بکے ہیں۔ کیا ان کے خلاف اب تک کوئی تادیبی کارروائی کی گئی۔ کیا ان جماعتوں سے دوری اختیار کی گئی جن کے سینیٹر بک گئے اور ن لیگ کی شکست کا باعث بنے؟ پاکستان میں ہر سطح کے انتخابات میں پیسا چلتا رہا ہے یا حکمران جماعت انتخابات کے موقع پرریوڑیوں کی طرح عوام میں سہولتیں تقسیم کرتی ہے اور یہ بھی دھاندلی ہے۔خاقان عباسی نے چیئرمین سینیٹ کی ذات کی بارے میں جو الفاظ استعمال کیے وہ نواز شریف اور ان کے حواریوں کو تو زیب دیتے ہیں شاہد خاقان کو نہیں۔ گزشتہ جمع کو سرگودھا میں خطاب کرتے ہوئے غیر منتخب وزیراعظم نے عمران خان، آصف زرداری اور صادق سنجرانی کو چیلنج دیا کہ اگر وہ اس بات سے انکار کر دیں کہ چیئرمین سینیٹ پیسے سے نہیں بنا تو مان لیں گے۔ سیاست میں اقرار اور انکار کوئی بڑی بات نہیں۔ سیاسی ساکھ بچانے کے لیے کوئی کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ میاں نواز شریف نے ایوان زیریں میں کچھ اور کہا۔ جلسے میں کچھ اور، عدالت عظمیٰ میں کچھ اور کہہ دیا۔ آصف زرداری نے بطور صدر قرآن کریم پر ہاتھ رکھ کر میاں نواز شریف سے جو وعدے کیے ان سے یہ کہہ کر مکر گئے کہ وعدے کوئی قرآن و حدیث تو نہیں۔ بی بی بے نظیر کی قبر پر کھڑے ہو کر ہالا کے مخدوم امین فہیم کو وزیراعظم بنانے کا اعلان کیا اور کہہ کے مکر گئے۔ عمران خان تو یوٹرن لینے کے لیے مشہور ہی ہیں۔ چنانچہ ضرورت پڑی تو وزیراعظم کا چیلنج قبول کرکے صاف انکار کر دیں گے۔ شاہد خاقان عباسی نے جلسے میں فرمایا کہ مخالفین کو چیئرمین سینیٹ سے متعلق بیان پر بڑی تکلیف ہے، کچھ شرم اور ضمیر ہے تو ٹی وی پر آ کر کہہ دیں کہ ارکان نہیں بکے۔ فرمایا کہ پھر کہتا ہوں چیئرمین سینیٹ پیسے سے بنا، وہ ملک کی نمائندگی نہیں کر سکتا، اس کو گھر بھیج دینا چاہیے۔ جلسوں اور بیانات میں جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے سے بہتر ہو گا کہ ایوان بالا میں تحریک عدم اعتماد لائی جائے اور چیئرمین کو تبدیل کرایا جائے۔ لیکن کیا اب بھی اپنے ارکان پر اعتبار اور اعتماد نہیں ہے؟ خاقان عباسی نے کہا کہ گالی گلوچ کی سیاست جولائی تک چلے گی۔ یعنی ابھی کم از کم چار ماہ تک گالیوں کا سامنا رہے گا۔ اس مقابلے میں کون نمبر ون رہتا ہے، اس کا تعین بھی ہو جانا چاہیے۔ ممکن ہے کہ یہ تاج تاحیات قائد اور ان کی دختر کے سر پر سج جائے یا عمران خان بازی لے جائیں۔ شاہد خاقان نے انکشاف کیا کہ ’’عدالت کے فیصلے کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے ہی میاں نواز شریف نے وزارت عظمیٰ سے استعفا دے دیا۔‘‘ شاید ایسا ہی ہوا ہو پھر اس کے بعد سے مجھے کیوں نکالا کی گردان کیسی۔اگر خود سے استعفا دیا تھا تو پھر یہ واویلا کیوں؟ ہر جلسے میں کہاجاتاہے کہ انہیں غلط نکالاگیا۔ انہیں شاید یاد ہو کہ جب عدالت نے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کو صرف لمحوں میں فارغ کردیا تھا تونواز شریف ہی نے کہا تھا کہ بس اب گھر جاؤ۔ اور وہ خاموشی سے چلے گئے تھے، یہ پوچھے بغیر کہ مجھے کیوں نکالا۔ ایک بڑی عجیب بات کہی جاتی ہے اور وزیر اعظم نے بھی دہرایا ہے کہ نواز شریف کو فارغ کرنا ملک کا نقصان ہے، ایسے فیصلوں سے ترقی رک جاتی ہے۔ لیکن کیا ترقی کا سارا بوجھ نواز شریف نے اٹھارکھا تھا؟ حکومت تو اب بھی ن لیگ کی ہے اور اس کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ہیں۔ کیا وہ نااہل ہیں کہ ترقی رک گئی؟ اور کیا صرف 8ماہ میں کیا کرایا غارت ہوگیا۔ یہ کیسی ناپائیدار ترقی تھی۔ کرنسی کی اوقات نہیں رہی تو اس کا سبب نواز شریف کے سمدھی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی نااہلی ہے۔ بجلی ، پانی ، گیس کا بحران ، مہنگائی وغیرہ جیسے مسائل اچانک تو پیدا نہیں ہو گئے۔اور اگر ہوئے ہیں تو شاہد خاقان عباسی بھی اپنے گھر جائیں اور فریاد کرتے رہیں۔