بھارت کا طے شدہ وقت اور مقام۔کشمیر

370

بھارتی حکمرانوں کی جانب سے کشمیریوں پر مظالم میں اضافہ اور پاکستان کی جانب سے بیانات کی تو پوں کا دہانہ کھول دیا گیا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے میں بھارتی فوج نے مختلف مقامات پر 40 کے لگ بھگ کشمیریوں کو شہید کردیا۔ سیکڑوں کی تعداد میں زخمی ہیں جب کہ پیلٹ گن کا استعمال پھر شروع کردیاگیا ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے خوامخواہ بیانات کی توپیں چلائی جارہی ہیں کچھ کرنا کرانا ہے نہیں۔ صرف تین روز قبل 29 مارچ کو پاکستان کے دفتر خارجہ نے بیان دیا کہ بھارت کو طے شدہ وقت اور مقام پر سبق سکھائیں گے۔ یہ بات بہت واضح طور پر کشمیر کے تناظر میں کہی گئی تھی کہ کشمیر میں کنٹرول لائن پر خلاف ورزیوں میں غیر معمولی اضافہ کسی بڑی مہم جوئی کا سبب بن سکتا ہے۔ سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔یہ دھمکی بھی دی گئی تھی کہ بھارت ہماری طاقت کا غلط اندازہ نہیں لگائے۔ بھارت کے شرانگیز حکمرانوں نے دونوں بیانات کا وہ جواب دیا جو وہ دے سکتے ہیں۔ ان کے قبضے میں کشمیر ہے وہ کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاں بھی کرتے ہیں اور کشمیریوں پر حملے بھی، سرچ آپریشن کے نام پر ایک رات میں ایک ہی علاقے سے درجنوں لوگوں کو گرفتار کرکے لے جاتے ہیں۔ چنانچہ 30مارچ کو اس بیان کی اشاعت کے دو دن بعد بھارتی فوج نے یکم اپریل کو 17 کشمیریوں کو شہید کردیا۔ اس موقع پر سرچ آپریشن کے لیے آنے والے بھارتی فوجیوں نے براہ راست فائرنگ کی، پیلٹ گنیں استعمال کیں۔ جس سے کئی نوجوانوں کی آنکھیں زخمی ہوگئیں۔ یہ کیا سرچ آپریشن تھا کہ براہ راست فائرنگ اور آنسو گیس کی زبردست شیلنگ کی گئی۔ یہ معاملہ محض بھارتی فوج کی چیرہ دستیوں کا نہیں ہے بلکہ اس کے نتیجے میں بھارت پاکستانی حکمرانوں کو بے نقاب بھی کرتا ہے اور کشمیریوں میں مایوسی پھیلاتا ہے۔ جب پاکستان کچھ کر نہیں سکتا تو دفتر خارجہ کو ایسی بڑھک مارنے کی کیا ضرورت تھی کہ طے شدہ وقت اور مقام پر سبق سکھائیں گے۔ دوسرا سبق بھارت نے یہ سکھایا ہے کہ ہم نے تو اپنے طے شدہ وقت اور مقام پر کارروائی کر دکھائی اب تم بھی کچھ کر گزرو۔ لیکن ہمارے پاس جو سب سے بڑی چیز ہے وہ ہے بیانات کی توپ، اس کے دہانے کی چوڑائی کی کوئی حد نہیں۔ اس کے ذریعے ہم بھارت کے ٹکڑے بھی کرسکتے ہیں اور امریکا کو بھی تباہ کرسکتے ہیں اور ہوا بھی یہی ہے۔ اب دفتر خارجہ کیا کہتا ہے اس کا انتظار ہے۔ کم از کم یہ سطور اشاعت کے لیے جانے تک دفتر خارجہ کا کوئی بیان اس حوالے سے سامنے نہیں آیا کہ بھارت کو سبق کیسے سکھایاجائے گا۔ہاں یہ ضرور ہوا کہ دختران ملت کی رہنما آسیہ اندرابی کو بری طرح مایوس کیا۔انہوں نے اتوار کی رات اپنے صوتی پیغام کے ذریعے پاکستان سے اپیل کی تھی کہ بھارتی فوج کے ظلم کے خلاف آج یوم سیاہ کا اعلان کیا جائے لیکن یہاں ایک سفاک قسم کی خاموشی رہی۔ حکومت کی جانب سے 6 اپریل کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کردیاگیا ہے۔ یقیناًیوم یکجہتی سے بھی کشمیریوں کو حوصلہ ملتا ہے لیکن اتنی دیر کیوں۔ کس سے مشورہ کیا گیا ۔اتنی دیر میں تو بھارت مزید کشمیریوں کو شہید کردے گا اور وہ طے شدہ وقت اور مقام کیا ہے جہاں بھارت آہی نہیں رہا۔ یاپھر وہ وقت ابھی نہیں آیا۔ وقت آئے گا تو مقام بھی طے کرلیا جائے گا۔ ہوسکتا ہے یہ مقام کراچی کا نیشنل اسٹیڈیم ہو جہاں تقریباً نصف کروڑ لوگوں کو یرغمال بناکر کرکٹ میچ کامیابی سے کرالیا جاتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے عملی اقدامات اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کو جھنجھوڑنے کے بجائے وزیر خارجہ نے زبردست بیان داغا۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیری جنون عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔ لیکن حکومت پاکستان کے ضمیر پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے ایک اور بیان دیا ہے کہ بھارت کی جانب سے آگ سے کھیلنے کی کوشش کے نتیجے میں دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ چھڑ سکتی ہے۔ ایسے بیانات دینے کے بجائے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ مستقبل میں ایسا کریں گے۔ پانچ دن بعد یوم یکجہتی منائیں گے اس طرح کے سست رو اقدامات بھارت پر اثر ڈالنے والے نہیں۔ امریکا و روس تو محض الزامات کی بنیاد پر ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو ملک بدر کررہے ہیں اور یہاں بھارتی سفیر کی طلبی کے بارے میں سوچا بھی نہیں گیا۔ پاکستانی حکومت کو فوری طور پر بھارتی سفیر کو طلب کرکے احتجاج کرنا چاہیے تھا اور کشمیر تو ایسا معاملہ ہے کہ اگر بھارتی سفیر کو ملک بدر بھی کردیا جاتا تو کوئی ہرج نہیں تھا۔ بھارت سے تعلقات اور دوستی دشمنی سب کا مرکزو محور کشمیر ہے۔ اگر کشمیر کے معاملات درست نہیں تو پھر کیسے تعلقات کہاں کی دوستی۔ اور سب سے بڑھ کر قیمتی چیز ہمارے کشمیری بھائی ہیں۔ ان کو اعتماد دینا اولین ضرورت ہے۔ افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ صرف بھارتی مظام میں اضافہ نہیں ہوا ہے بلکہ اسرائیل نے بھی فلسطینیوں کے خلاف جبر و ستم میں اضافہ کردیا ہے۔ بنگلا دیش میں بھی پاکستان سے محبت کرنے یا تعلق رکھنے والوں کو سخت سزا دینے کا اعلان کیاگیا ہے۔ برطانیہ میں ایک مسلمان کو تکلیف دینے والا دن منایا گیا اور پاکستان، سعودی عرب اور دوسرے اسلامی ممالک اپنے اپنے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ دراصل امت کا تصور چھین لیا گیا ہے۔ جب تک اسلامی ممالک کسی نہ کسی طور امت مسلمہ کے نمائندے بنے ہوئے تھے اس وقت تک کفا رپر بھی مسلمانوں کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ خوفزدہ رہتے تھے کہ کسی روز یہ سب ایک ہوگئے تو ہمارا کیا ہوگا۔ لہٰذا پہلا کام یہ کیا گیا کہ مسلمانوں میں زبردست طریقے سے انتشار و افتراق پیدا کیاگیا اب سعودی عرب، مصر، عراق، ایران، افغانستان، پاکستان، ترکی، شام، یمن، کویت، امارات سب ہی کسی نہ کسی ایسے جھگڑے میں الجھے ہوئے ہیں جو اپنے ہی کسی اسلامی ملک کے خلاف ہے۔ الزام اور دعویٰ غلط ہو یا صحیح نتیجہ یہ ہے کہ امت مسلمہ اب کہیں وجود نہیں رکھتی یہی وجہ ہے کہ اسرائیل سے لے کر بھارت تک اور افغانستان سے لے کر شام تک مسلمان ہی نشانے پر ہے۔ اس صورتحال کا واحد حل امت کے تصور کی بحالی ہے۔