جنابِ ٹرمپ ایک ٹویٹ اُدھر بھی

411

افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل جون نکلسن نے روس پر طالبان کو اسلحہ فراہم کرنے کا الزام عاید کیا ہے۔ جنرل نکلسن کا کہنا تھا کہ روس نے تاجکستان کی سرحد پر جنگی مشقوں کے دوران جو اسلحہ جمع کیا تھا مشقیں ختم ہونے کے بعد سے واپس لے جانے کے بجائے وہیں چھوڑ دیا گیا جو اسمگل ہو کر افغانستان پہنچا اور وہاں اسے اپنی اصل منزل یعنی طالبان کے ہاتھ لگ گیا۔ ان میں دوسرے اسلحے کے علاوہ بھاری مشین گنیں اور رات کو دیکھنے والے آلات بھی شامل ہیں۔ روس نے امریکی جنرل کا یہ الزام مسترد کیا ہے اور کہا کہ امریکا نے پہلے بھی کسی ثبوت کے بغیر اس طرح کے الزامات عاید کیے ہیں۔امریکی الزامات درست ہیں تو یہ بات افغان مسئلے کو مزید پیچیدہ بنانے کے لیے کافی ہے۔ اس وقت امریکا کا موقف صرف یک نکاتی تھا کہ افغانستان میں سارا فساد اور بے چینی حقانی نیٹ روک کی بدولت ہے اورپاکستان اس کا سرپرست اور معاون ہے۔ امریکا نے اپنا یہ فلسفہ پوری دنیا میں عام کر کے پاکستان کو تنہا اور بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دنیا کو یہ باور کرایا گیا کہ افغانستان میں سارے مسائل اور مشکلات کی جڑ پاکستان ہے۔ اس الزام تراشی میں امریکا کو بھارت اور کابل حکومت کی معاونت بھی حاصل رہی۔
افغانستان میں امریکا، ناٹو اور ایساف سمیت درجنوں ملکوں کی فوجیں جدید ہتھیاروں سے لیس ہوکر لڑتی رہیں مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ زمین ان کے پیروں تلے سے کھسکتی رہی یہاں تک کہ کئی مغربی ملکوں نے افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلا ہی میں عافیت جانی۔ افغانستان میں ہر نیا زخم سہنے کے بعد اور ہر نیا کچوکا لگنے کے باجود امریکا اپنی انا کا پرچم لہراتا رہا۔ اسے اپنی ناکامیوں کا ملبہ ڈالنے کے لیے جس سینڈ بیگ کی ضرورت تھی وہ پاکستان کی صور ت میں مل گیا تھا۔ پاکستان جیسی بے زبان اور بے ضرر مخلوق بھی امریکا کو کہاں میسر آتی کہ جو امریکی ڈرون کو بھی اپنے کھاتے میں ڈال کر خود کو حالات کی بند گلی میں پھنساتے رہے۔ امریکا نے پاکستان کا موقف سننے کی کبھی ضرورت ہی محسو س نہیں کی گئی، شاید وہ یہ موقف سننا ہی نہیں چاہتے تھے۔ کم و بیش ایک عشرہ اسی طرح گزر گیا، امریکی الزامات عاید کرتے رہے اور پاکستان کٹہرے میں کھڑا وضاحتیں کرتا رہا۔ طالبان کے قدم آگے بڑھتے رہے اور وہ مزید علاقوں کا کنٹرول سنبھالتے رہے۔ افغان حکومت کی عملداری سمٹتی اور سکڑتی چلی گئی۔ ایک عشرہ گزر گیا تو افغان مسئلے کی کئی نئی جہتیں کھلتی چلی گئیں۔
2001 میں جب امریکا نے افغانستا ن پر یلغار کی تھی تو روس اس وقت اپنی معاشی حالت بہتر بنانے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ایک خوفناک بحران سے نکلنے کی سرتوڑ کوششیں کررہا تھا اس لیے وہ اپنے پچھواڑے میں امریکا کی آمد اور مستقل قیام کی جانب توجہ نہ دے سکا۔ روس نے اپنے داخلی مسائل پرقابو پالیا تو اسے خطے میں امریکا کی فوجی موجودگی کا احساس کلبلانے اور ستانے لگا۔ اس دوران امریکا نے روس کے معاملات میں بھی سینگ پھنسانے کی کوشش شروع کیں جو یوکرائن کے بحران پر منتج ہوئیں۔ اس کے بعد روس نے طالبان سے رسم وراہ پیدا کرنا شروع کی۔ داعش کے اُبھرتے ہو ئے خطرے نے روس کو طالبان کے ساتھ معاملات بہتر کرنے پر مجبور کر دیا۔ روس کو یہ خطرہ ہے کہ افغانستان میں داعش کا پھیلاؤ وسط ایشیائی ریاستوں اور آخر کار روس کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ اس خطرے نے طالبان اور روس کو مزید قریب کر دیا۔ اب اگر امریکا کو احساس ہو گیا کہ روس طالبان کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے تو پھر جناب ٹرمپ کے ذمے ایک زوردار ٹویٹ تو واجب ہے۔ ایک ایسا ٹویٹ جس میں وہ روس پر امن عالم کو تباہ کرنے اور افغانستان میں بدامنی کا جزوی ہی سہی مگر الزام عاید ہو۔ ایسا ٹویٹ جس میں دھوکے بازی اور عہد شکنی کی بات ہے اور تجارتی تعلقات کو محدود کرنے کی دھمکی ہو۔
ایک ٹویٹ میں یہ سب کچھ سمانا شاید مشکل ہو تو اس کے لیے ایک اور ٹویٹ کیا جا سکتا ہے۔ وہ عالمی فورمز پرروس کو اس طرح بدنام کیوں نہیں کرتا جس طرح پاکستان کے خلاف برسوں سے ایک منظم مہم چلائی جا رہی ہے مگر امریکا میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ روس کے خلاف الزام تراشی پر مبنی کوئی مہم چلائے۔ اس لیے کہ روس اور امریکا کے درمیان تعلقات کا ایک توازن رہا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کے حکمران طبقات نے اس ملک کو عملی طور پر امریکا کے ہاں گروی رکھ چھوڑا تھا یہ تو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا کی ترجیحات اور ضرورتیں بدل گئیں اور امریکا پاکستان سے نظریں پھیرتا چلا گیا یہاں تک کہ اب دونوں کے تعلقات میں ایک گہری خلیج پیدا ہو چکی ہے۔ پاکستان اس کھیل میں فقط جرم ضعیفی کا شکار ہے۔ روس سے پہلے چین اور ایران کے بارے میں کبھی کھلے تو کبھی ڈھکے انداز میں اسی طرح کی باتیں ہوتی رہیں۔ امریکی ڈرون حملے کا شکار ہونے والے طالبان کے سابق سربراہ کے پاسپورٹ پر کئی ملکوں کے ویزے لگے ہوئے تھے مگر امریکا نے ان ویزوں کی تحقیق کے بجائے اس باب کو بند ہی رکھنے میں عافیت جان لی۔ ٹویٹ کے اس کھیل میں امریکا کے دوہرے رویوں میں پاکستان کے لیے سبق ہے کہ کبھی کسی ملک اور طاقت کے لیے راہ کی گھاس نہیں بننا چاہیے کہ آپ کو یک طرفہ ہی روندا جاتا رہے۔