اسرائیل کو تسلیم کا عندیہ

497

ایک عرصے تک مملکت عربیہ السعودیہ کو سنی ممالک کا قائد تسلیم کیا جاتا رہا اور شیعوں کی قیادت ایران کے پاس رہی۔ سعودی عرب کو یہ اعزاز حرمین شریفین کی وجہ سے حاصل تھا اور پھر سعودی حکمران خود کا خادم حرمین شریفین کہلانے لگے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی حکمرانوں نے حرمین شریفین کی آرایش و توسیع اور حاجیوں، معتمرین اور زائرین کو سہولتیں فراہم کرنے میں کمال کردیا۔ مگر اب سنی مسلم ممالک کی قیادت کا شرف سعودی حکمران خود اپنے ہاتھوں سے کھو رہے ہیں۔ ایک تاثر، بلکہ حقیقت یہ تھی کہ سعودی عرب میں اسلامی احکامات پر سختی سے عمل ہوتا ہے، خواتین پردے کی پابند ہیں اور علما کرام بغیرکسی دباؤ کے شرعی احکامات پر عمل کرواتے ہیں۔ مملکت میں سنیما، فلموں کی نمایش، موسیقی کے اجتماعات پر پابندی تھی۔ لیکن اب اسلام کو مغربی تہذیب یا بے ہودگی کے ہم پلّہ کرنے کے لیے سعودی عرب میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور ایک ’’روشن اورلبرل‘‘ اسلام متعارف کرایا جارہا ہے۔ توقع یہ ہے کہ شاید اس طرح امریکا راضی ہو جائے۔ جنگ خلیج میں امریکا نے سعودی عرب کے کاندھوں پر سوار ہو کر جنگ لڑی اور تمام اخراجات سعودی عرب سے وصول کیے جس پر ایک سعودی صحافی نے لکھا تھا کہ ہم اب تک امریکا کے بل ادا کررہے ہیں۔ شاید یہ مملکت کے داخلی معاملات ہوں لیکن اب بات اس سے کہیں زیادہ آگے بڑھ چکی ہے۔ اب روشن خیال ولی عہد اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ وہ اپنے ان عزائم کا اظہاربھی کر چکے ہیں کہ آئندہ سعودی عرب کے حکمران وہ ہی ہوں گے اور عملاً اس وقت بھی صورتحال یہی ہے کہ تمام اختیارات انہی کے ہاتھ میں ہیں۔ لیکن اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ سعودی عرب یا کسی اور مسلم ملک کا نہیں بلکہ یہ امت مسلمہ کا معاملہ ہے اور امت کی اکثریت کبھی اسرائیل کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوگی۔ گو کہ کچھ عرب ممالک ایسا کر چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں امریکا میں پاکستان کی سفیر عابدہ حسین نے کہا تھا کہ جب عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں تو پاکستان کو اس میں کیا پریشانی ہے۔ اب ایسے لوگوں کو سعودی عرب کا جواز مل جائے گا۔ گزشتہ پیر کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے امریکی جریدے دی اٹلانٹک کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کو اپنی سرزمین پر رہنے کا حق حاصل ہے۔ یہ بات انہوں نے انٹرویو کے دوران میں صحافی کے اس سوال کے جواب میں کہی کہ کیا یہودیوں کو تاریخی طور پر اپنے آبائی وطن میں ریاست بنانے کا حق ہے؟ محمد بن سلمان کا جواب تھا کہ میری رائے میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر اپنی ریاست بنانے کا حق ہے۔ اس سے پہلے کبھی سعودی عرب نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تاہم 2002ء میں دو ریاستی حل کی حمایت کی تھی۔ سعودی ولی عہد نے یہ انکشاف بھی کیا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان بہت سے مفادات مشترک ہیں اور اگر امن قائم ہو جائے تو اسرائیل اور خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کے درمیان روابط بڑھائے جاسکتے ہیں۔ یعنی اسرائیل کو بھی خلیج تعاون کونسل کی رکنیت دی جاسکتی ہے۔ سارا کھیل ہی مفادات کا ہے اور یہ کوئی راز نہیں کہ اسرائیل کو تسلیم اور اس سے سفارتی تعلقات استوار کرکے امریکا کو مزید خوش کیا جاسکتا ہے۔ مسلم ممالک کے مفادات امریکا ہی سے وابستہ ہیں، اسرائیل سعودی عرب کو کیا دے گا بلکہ امت مسلمہ کی فصیل میں سیندھ لگا کر خود تمام مفادات حاصل کرے گا۔ سب سے بڑا مفاد تو یہی ہے کہ اسے تسلیم کیا جائے اور سعودی ولی عہد نے بخوشی اس کا عندیہ دے دیا۔ جہاں تک اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر اپنی ریاست بنانے کا حق ہے تو محمد بن سلمان بھی خوب جانتے ہیں کہ اسرائیل نے فلسطینیوں سے یہ حق چھین لیا ہے اور ان کی زمینوں پر قبضہ مستحکم کرتا چلا جارہا ہے۔ فلسطینیوں کی سرزمین پر یہودی بستیاں تعمیر کی جاری ہیں۔ 1967ء سے بیت المقدس پر قبضہ جما رکھا ہے جو سعودیوں کے لیے بھی مقدس ہے۔ اس کے بارے میں محمد بن سلمان نے ایک لفظ نہیں کہا کیونکہ اب امریکا نے بیت القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے دیا ہے۔ بدھ کے دن امریکی سفیر دیوار براق پر بھی پہنچ گیا۔ اسرائیل نے صرف فلسطین کے بڑے علاقے پر قبضہ نہیں کر رکھا بلکہ اردن کا ایک بڑا حصہ اس کے قبضے میں ہے اور شام کے علاقے جولان کی پہاڑیوں پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔ سعودی حکومت کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ اسرائیل 1967ء سے پہلے کی حدود میں واپس چلا جائے تاہم اب موقف تبدیل ہو رہا ہے۔ مان لیا کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر رہنے کا حق حاصل ہے لیکن فلسطینیوں سے یہ حق چھین لیا گیا ہے۔ اسرائیل روزانہ فسلطینیوں کو شہید کر رہا ہے اب اس کا حوصلہ مزید بڑھ جائے گا۔ جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ امریکا، اسرائیل اور بھارت کا شیطانی اتحاد ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے۔ غنیمت ہے کہ سعودی شاہ سلمان نے اسرائیل کے بارے میں سعودی موقف کا اعادہ کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ فلسطین پر ہمارا موقف نہیں بدلا۔