تربوز کھانا بھی، مشروب بھی

1350

عربی میں بطیخ تربوز کو کہتے ہیں۔ محد ثین نے بطیخ کو تربوز قرار دیا ہے مگر آج کل کی عربی میں یہ گڑ بڑ ہوگیا ہے۔ عرب میں بطیخ خربوزہ کو کہا جاتا ہے اور تربوز کو حب حب کہتے ہیں۔ حجازیوں نے ان دنوں عربی کے اور الفاظ میں بھی مشکل پیدا کردی ہے جیسے کہ لبن۔ پرانی عربی میں لبن دودھ کو کہتے آئے ہیں۔ آج کل دہی کولبن اور دودھ کو حلیب کہا جاتا ہے البتہ بعض لوگ صراحت کے مد نظر دہی کو ’’لبن جامض‘‘ کہتے ہیں۔
تربوز دنیا کے اکثر گرم ملکوں میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ہر ملک میں پایا جاتا ہے۔ بھارت اور پاکستان میں بھی عام ملتا ہے۔ امریکی ریاست کیلی فورنیا کا تربوز اپنی سرخی اور حلاوت میں مشہور ہے۔ کہتے ہیں کہ ریتیلے علاقوں کا تربوز زیادہ میٹھا ہوتا ہے۔ نجد، حجاز کے بعض علاقوں کا تربوز واقعی بڑا لذیذ ہے۔ مگر حجاز میں خلیجی علاقوں سے درآمد ہوئے تربوز اتنے عمدہ نہیں ہوتے۔ دنیا میں اس وقت پاکستان کے ضلع سکھر کے علاوہ گڑھی یٰسین کے تربوز ذائقہ اور حجم میں بہترین مانے جاتے ہیں۔
تربوز کی عمدگی اس کے گودے کی سرخی اور مٹھاس پر قرار دی جاتی ہے۔ ملاوٹ کے اس دور میں دیکھا گیا ہے کہ پھل فروش سرخ رنگ میں اسکرین ملا کر تربوز میں انجکشن لگا کر ان کو مصنوعی طور پر سرخ اور میٹھا کرلیتے ہیں۔
بنیادی طور پر یہ افریقا کا پھل ہے جو سیاحوں کی بدولت دنیا بھر میں مقبول ہوگیا۔ آج کل پاکستان میں چین کے درآمدی بیج سے چھوٹے حجم کے ایسے تربوز کثرت سے پیدا ہورہے ہیں جو لذیذ بھی ہیں۔ پھل وزنی ہونے کی وجہ سے اس کا پودا زمین پر رینگنے والا ہے۔ بیج بونے سے چار ماہ میں پھل پک کر تیار ہوجاتا ہے۔ پکے ہوئے پھل کی پہچان میں کہا جاتا ہے کہ اگر اس پر ہلکا ہاتھ ماریں تو جواب میں مدھم آواز عمدگی کی علامت ہے۔
ماہرین زراعت نے اس کے حجم اور چھلکے کے بیرونی رنگ کی مناسبت سے اس کی کئی اقسام بیان کی ہیں جن کے نام مختلف علاقوں پر ہیں۔ اس کا اوپر کا چھلکا تقریباً دو سینٹی میٹر موٹا ہوتا ہے۔ اندر نرم گودا جس میں کافی تعداد میں سخت چھلکے والے بیج پائے جاتے ہیں پھل جلد خراب نہیں ہوتا۔ اگر اسے ٹھنڈے اور خشک کمرے میں رکھا جائے تو شکل اور ذائقہ 15-20 دن تک قائم رہتے ہیں۔
ارشادات نبویؐ
محمد ثین کی اکثریت تربوز کے بارے میں صرف ایک حدیث کو ثقہ قرار دیتی ہے۔
حضرت سہل بن سعدؓ الساعدی روایت فرماتے ہیں۔
(نبی ﷺ تازہ پکی ہوئی کھجوروں کے ساتھ تربوز کھایا کرتے تھے)۔
اس حدیث کے الفاظ میں سنن ابو دائود میں یہ اضافہ ملتاہے۔
(اور فرمایا کہ کرتے تھے کہ اس کی گرمی کو اس کی ٹھنڈک ماردیتی ہے اور اس کی ٹھنڈک کو اس کی گرمی ماردیتی ہے)۔
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسولﷺ نے فرمایا (مسند فردوس، الرافعی، کتاب البطیخ، ابو عمر)
(تربوز کھانا بھی ہے اور مشروب بھی، ریحان کے ساتھ یہ مثانہ کو دھو کر صاف کردیتا ہے پیٹ کو صاف کرتا ہے۔ کمر سے پانی نکال دیتا ہے۔ باہ میں اضافہ کرتا ہے۔ چہرے کو نکھارتا ہے اور جسم سے ٹھنڈک کو ختم کرتا ہے)۔
ذہبیؒ نے یہ روایت اسی طرح بیان کی ہے جبکہ کنزالعمل نے حدیث کی ابتداء
فی البطیخ عشر خصال
سے شروع کی ہے۔ باقی عبارت وہی ہے۔ البتہ تربوز کے ساتھ ریحان کا تذکرہ نہیں۔ عمات نبی ﷺ ان سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے فرمایا۔
اصلا (ابن عساکر)
(کھانے سے پہلے تربوز کھانے سے پیٹ دھل کر صاف ہوجاتا ہے اور یہ بیماریوں کو نکال دیتا ہے)۔
ابن عسا کر اس حدیث کے سلسلہ کو یقینی قرار نہیں دیتا اور ابن القیم اس عبارت کو اطباء کو قول بیان کرتے ہیں۔
محد ثین کے مشاہدات
اکثر محد ثین نے بیان کیا ہے کہ نبیﷺ کو پھلوں میں انگور اور تربوز بہت پسند تھے اور وہ انہیں شوق سے کھایا کرتے تھے۔
جدید مشاہدات
بنیادی طور پر تربوز مفرح، پیشاب آور، پیٹ سے جلن اور سوزش کو رفع کرنے والا غذائیت سے بھرپور ہے۔ اس کے بیج پیٹ سے کیڑے نکالتے ہیں۔ اس کا جوس پیاس کو بجھاتا ہے۔ اس کے جوس میں کھانڈ اور زیرہ ملاکر گردہ مثانہ اور پیشاب کی نالی کی سوزشوں میں مفید ہے۔ یہ نسخہ جگر کی سوزش اور یرقان بھی میں بھی مفید ہے۔ تربوز کھانے سے معدہ اور آنتوں کے زخم مندمل ہوجاتے ہیں۔ اس میں بہی کی طرح PECTIN کی موجودگی اسے اسہال اور پیچش میں بھی مفید بنادیتی ہے۔ سندھ میں پایا جانے والا جنگلی تربوز ’’کربت‘‘ کڑوا ہوتا ہے مگر وہ بھوک بڑھاتا اور قبض میں مفید ہے۔
حکیم صفی الدین نے اسے مسکن حرارت، مدرالبول قرار دیا ہے۔ کثرت صفرا اور پیاس کی زیادتی، سوزش معدہ، پیشاب کی نالیوں کی سوزش، خشونت حلق، گردہ اور مثانہ کی پتھری اور تپ محرقہ میں مفید بیان کیا ہے۔ اس میں غذائی عناصر کی مقدار اسے جسم کے لیے مقوی بلکہ وزن کو بڑھانے والا بنا دیتی ہے۔ اس غرض کے لیے آب تربوز کے علاوہ اس کے تخم شیرہ بھی کارآمد ہے۔ تربوز سے ایک مشہور یونانی دوائی ’’لعوق آب تربوز والا‘‘ تیار کی جاتی ہے۔ اس کے بچوں سے ایک روغن بھی حاصل کیا جاتا ہے۔تربوز کا ہر حصہ مدر البول ہے۔ جلد ہضم ہوجاتا ہے۔ گردہ اور مثانہ سے پتھری کو نکالتا ہے۔ معدہ سے غلاظت کو نکال کر پیٹ کو صاف کرتا ہے۔ بخار کے مریضوں کو اسے سرکہ کی سکنجبین کے ساتھ دینا مفید رہتا ہے اور سوہ ہضم میں ادرک یا سونٹھ ملاکر دینے سے اور مفید ہوجاتا ہے۔ اسے کھانے سے چہرے کے ورم اتر جاتے ہیں اور رنگت صاف ہوجاتی ہے۔ ابو مسہر الغسانی کی عادت تھی کہ وہ جب بھی تربوز کھانے لگتے تو کاٹنے سے پہلے نبی ﷺ کو یاد کرلیتے اور تربوز ہمیشہ میٹھا نکلتا۔
کچھ لوگوں نے اسے کھیرے اور ککڑی سے زیادہ مفید قرار دیا ہے۔ اگر کسی کو جسم میں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہو تو وہ اسے ادرک کے ساتھ کھائے۔ یہاں پر ٹھنڈک سے مراد جسم کی قوت مدافعت میں کمی ہے۔ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اسے کھانے سے جسم میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی استعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔
کیمیاوی ماہیت
تربوز کے پکنے کی اہم علامت یہ ہے کہ بیل کے ساتھ جوڑنے والی شاخ ڈنڈی سے خشک ہوکر سوکھ جاتی ہے۔ اس کے کیمیاوی اجزاء میں زیادہ تر پروٹین اور ایک جوہر سٹرولین بیان کئے جاتے ہیں۔ بعض لوگوں نے اس میں سے ایک تیل بھی نکالا ہے۔ اس تیل کے علاوہ تربوز میں تمام وٹامن معقول مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ ایک تندرست شخص کو روزانہ تین ملی گرام وٹامن ب کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ایک سو گرام میں یہ وٹامن تیس ملی گرام ہوتی ہیں۔ اسی طرح وٹامن ب مرکب کے دوسرے تمام اجزاء اور وٹامن الف اور ج بھی پائے جاتے ہیں۔ اس میں فولاد کی قابل ہضم شکل ملتی ہے۔ آنتوں کی جلن کو رفع کرنے والے جوہروں کے علاوہ اس میں اسہال کو روکنے والے عناصر بھی ملتے ہیں۔ اس میں پائی جانے والی مٹھاس پکنے سے بڑھتی ہے اور اس کا استعمال ذیابیطس کے مریضوں کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتا۔