این آر او۔۔۔ چل پڑا؟

401

یعنی کوئی این آر او ہوگیا ہے۔ جب ہی توپاک فوج کے ترجمان کو ڈنکا بجانا پڑا۔ ان کے بیان سے کچھ کچھ لگ رہا ہے کہ پاک فوج کا این آر او سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سے ایک روز قبل وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات ہوئی تھی اسے پیپلزپارٹی والوں نے جوڈیشل این آر او کہا۔۔۔ فوج نے اس سے لاتعلقی کی بات کردی۔ لیکن چیف جسٹس نے پہلا بیان دے کر بتادیا کہ کوئی این آر او ضرور ہے۔ اس کی کیا شکل ہوگی وہ بھی واضح ہونے لگی ہے۔ چیف صاحب کا بیان ہے کہ وزیراعظم سے ملاقات کے بعد معاملات میں تیزی سے پیش رفت ہوگی۔ اب کوئی سمری نہیں رکے گی حکومت کو کام کرنے دیں۔ اچھے لوگ مقرر نہیں کیے گئے تو ہم خود تقرر کریں گے۔ یہ اور بات ہے کہ اگلے دن چیف صاحب نے دوسرا بیان دیا کہ جوڈیشل این آر او یا جوڈیشل لا نہیں آرہا۔ وزیراعظم سے ملاقات میں ہم نے سائل کو کچھ نہیں دیا۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے بجا کہا ہے کہ یہ ملاقات بلاوجہ نہیں تھی نتائج پر نظر رکھیں گے۔ اب انہیں بغور تمام کیسز پر نظر رکھنی ہوگی۔ وزیراعظم سے ملاقات کے بعد چیف صاحب کا پہلا بیان اور نواز شریف خاندان کے خلاف جے آئی ٹی سربراہ کے بیان کو ملا کر پڑھیں تو پتا چلے گا کہ کیا ہورہا ہے۔ چیف صاحب نے کس چیز کے بارے میں کہا تھا کہ اب معاملات میں تیزی سے پیش رفت ہوئی۔ بہرحال پیش رفت ہوگئی۔ ایک روز خبر آئی کہ شریف خاندان نے لندن فلیٹس کے جعلی کاغذات جمع کرائے تھے لیکن اس ملاقات کے بعد خبر آئی کہ لندن کے فلیٹس کے شریف خاندان کی ملکیت کا ثبوت نہیں ملا۔ چوں کہ پیش گوئی یہی ہے کہ وزیراعظم سے ملاقات کے بعد تیزی سے پیش رفت ہوگی تو اگلے ہی دن یہ خبر آگئی کہ قطری شہزادے نے شریف خاندان کے کاروبار کی تصدیق کردی۔ ابھی تو رفتار تیز ہوئی ہے جب تیز رفتاری سے دوسرے معاملات سامنے آئیں گے تو قوم پچھلے معاملات پر کچھ بولنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی بلکہ سوچنے کی فرصت کبھی نہیں ہوگی۔
ابھی تو این آر او کی بات سامنے آئی ہے۔ لیکن کیا این آر او ابھی آیا ہے؟ سوال یہ ہے کہ این آر او کہتے کس کو ہیں۔ ایک وہ تھا جو جنرل ضیا اور بے نظیر بھٹو کے درمیان ہوا۔ اور جنرل ضیا کو راستے سے ہٹا دیا گیا تو بے نظیر کے لیے دروازہ کھل گیا۔ پھر جنرل پرویز اور بے نظیر بھٹو‘ نواز شریف‘ ایم کیو ایم این آر او آیا جس سے ڈاکٹر عشرت العباد ‘ بے نظیر بھٹو‘ نواز شریف سب نے فائدہ اٹھایا۔ اس مرتبہ بے نظیر این آر او کی شرائط سے آگے نکلنے کی کوشش میں جان سے گزر گئیں۔ نواز شریف نے این آر او پر ایک اور این آر او کیا اور تیسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے۔ لیکن این آر او کی حدود ہوتی ہیں شاید نواز شریف بھی کچھ حدود سے باہر ہورہے تھے۔
کہا جارہا ہے کہ معاملہ تو ابھی شروع ہوا ہے۔ لیکن ایک دوسرے انداز سے معاملے کو دیکھیں تو نظر آئے گا کہ معاملات اس وقت سے جاری ہیں جب پاناما کا کیس سامنے آیا تھا۔ پاناما سامنے آنے کے بعد سے عمران خان میڈیا پر واحد شخصیت کے طور پر نہیں رہے۔ بلکہ عمران خان کے ساتھ ساتھ نواز شریف کو بھی مناسب وقت ملنے لگا تھا پھر جب سے انہیں نااہل قرار دیا گیا ہے اس کے بعد سے تمام ٹی وی چینلز اور اخبارات میں صرف نواز شریف نظر آنے لگے۔ 8 ماہ سے صرف نوا زشریف مسلم لیگ اور نواز شریف میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ پہلے وہ مظلوم بنے پھر مشہور ہوئے اور موٹر وے کے بجائے جی ٹی روڈ کا راستہ اختیار کیا اس کے بعد تو گویا وہ واحد سیاسی رہنما بن گئے جن کو ٹی وی اور اخبارات ہر جگہ ایک نمبر کوریج مل رہی ہے بلکہ وی وی وی آئی پی کوریج ہے۔ ٹی وی چینل بتاتے ہیں مقدمے میں پیشی کے لیے گھر سے نکل گئے۔ گاڑی سے اتر گئے‘ عدالت میں داخل ہوگئے۔ اخبارات تصویر شائع کرتے ہیں کہ ملزم نواز شریف کی گاڑی پر گل پاشی کی جارہی ہے۔ آٹھ ماہ گزرنے کے بعد میاں نواز شریف میں جو اعتماد پیدا ہوا ہے وہ ان کو تین مرتبہ وزیراعظم بن کر بھی حاصل نہیں ہوا تھا۔ وہ تو میڈیا کے سامنے بات کرنے سے گھبراتے تھے اب تو طرح دے کر نکل جانا بھی سیکھ گئے ہیں، اس کے ساتھ طرحدار بیٹی بھی تو ہر پریس کانفرنس میں ہوتی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ نواز شریف کو سزا ہوجائے گی، کئی اخبارات میں تو نواز شریف خاندان کی سیاست کے خاتمے کی نوید بھی سنائی یا پڑھائی گئی ہے۔ لیکن نواز شریف کا اعتماد اس سے کہیں زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں کہیں سے بھی ہدایات دوں کارکن ان پر بھرپور عمل کریں یہ کہیں سے بھی۔۔۔ کا مطلب کیا ہے۔۔۔ کیا انہیں سزا ہونے والی ہے؟ وہ جیل سے ہدایات دیں گے۔۔۔ لیکن جیل سے ہدایات پر تو پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ تو پھر کیا وہ بیرون ملک چلے جائیں گے۔۔۔ وہاں سے ہدایات دیں گے۔ پاکستان میں بیرون ملک سے ہدایت جاری کرنے اور بیرون ملک سے پارٹی چلانے کی رویات تو پرانی ہے۔ فیصلہ کوئی بھی ہو۔۔۔ نواز شریف اندر جائیں یا باہر نتیجہ یہی نکلے گا کہ مسلم لیگ (ن) کو بھرپور پزیرائی ملے گی اور اس کی حکومت آئے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ انتخابات کے بعد اسٹیبلشمنٹ شہباز اور نواز کے درمیان خلیج میں اضافہ کرسکے گی یا نہیں یا پھر کوئی اور کھیل کھیلا جائے گا۔