آپ آج کے کالم کا عنوان پڑھ کر اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائیے گا کہ ہم نے کالم نویسی کے ساتھ ساتھ قیمہ فروخت کرنے کا کام بھی شروع کردیا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ دراصل آج کے کالم کے عنوان کا تعلق معروف صحافی مجیب الرحمن شامی کے ایک کالم سے ہے۔ اس کالم میں شامی صاحب نے ایک ہی جملے میں دو قومی نظریے اور جمہوریت و آئین سے متعلق خود اپنے طرزِ عمل کا قیمہ بنا ڈالا ہے۔ یہ کام شامی صاحب نے کیسے کیا ہے خود انہی کی زبان میں پڑھیے، لکھتے ہیں۔
’’گزشتہ کالم کا اختتام ان الفاظ پر ہوا تھا: ’’جگہ جگہ نوجوان سوال کرتے ہیں، ہمارا ہمسایہ اگر جمہوریت کے راستے پر گامزن رہ سکتا ہے تو ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ ہم صدیوں ایک دوسرے کے ساتھ رہے ہیں۔ ہماری بودوباش، انداز و اطوار اتنے بھی مختلف نہیں کہ ہم دو مختلف سیاروں کی مخلوق سمجھے جائیں۔ پھر ہم دستور شکنی کے مرض میں مبتلا کیوں ہیں؟ اولاً تو دستور بنا نہیں پائے، بنایا تو چلا نہیں پائے۔ نیا دستور بنانے کے شوق میں آدھا ملک گنوا بیٹھے لیکن آج بھی اس کی اہمیت کا ادراک کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ آخر کیوں؟ پیچھے کی طرف ہمارا سفر کب رکے گا؟ اس سوال کا جواب ہر اس شخص کے ذمے ہے، جو اپنے کام کے علاوہ ہر کام کرنے پر ہر وقت تیار رہتا ہے‘‘۔
(ڈیلی دنیا کراچی، 25 مارچ 2018)
جیساکہ شامی صاحب کے بیان سے ظاہر ہے وہ جگہ جگہ جاتے ہیں اور نوجوان ان سے پوچھتے ہیں کہ بھارت کے لوگوں اور ہمارے عوام کی بودوباش اور انداز و اطوار اتنے بھی مختلف نہیں کہ ہم دو مختلف سیاروں کی مخلوق سمجھے جائیں تو پھر ایسا کیوں ہے کہ بھارت میں جمہوریت ہے اور ہمارے یہاں جمہوریت نہیں ہے۔
شامی صاحب کے اس بیان کے ایک حصے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے لوگوں کے درمیان بس ذرا سی بودوباش اور انداز و اطوار کا فرق ہے ورنہ ہم ایک ہی جیسے ہیں۔ دیکھا جائے تو میاں نواز شریف کی نام نہاد جمہوریت کی محبت میں شامی صاحب نے دو قومی نظریے کو بودوباش اور انداز و اطوار کی سطح پر گھسیٹ لیا ہے حالاں کہ دو قومی نظریہ ایک عقیدہ ہے، ایک جداگانہ تصور تہذیب ہے، ایک جداگانہ تصو رتاریخ ہے، ایک جداگانہ تصور انسان ہے، ایک جداگانہ تصور معاشرت ہے، ایک جداگانہ بودوباش ہے، ایک جداگانہ انداز ہے، ایک جداگانہ اطوار کا سلسلہ ہے۔ کیا مسلمان توحید پرست نہیں، کیا ہندو شرک میں ڈوبے ہوئے نہیں، کیا ہماری کتاب مختلف نہیں؟ کیا ہمارا نبیؐ الگ نہیں؟، کیا مسلمان ایک خدا کی پرستش کے لیے مسجد نہیں جاتے؟ کیا ہندو بتوں کی پوجا کے لیے مندر کا رخ نہیں کرتے؟ کیا مسجد کے ڈیزائن پر ہماری الٰہیات اور مابعدالطبیعات کا سایہ نہیں؟ کیا مندروں کی تعمیر پر ہندوازم منڈلاتی نظر نہیں آتی؟ کیا مسلمان گائے کا گوشت نہیں کھاتے؟ کیا ہندو گائے کو ’’ماتا‘‘ کہہ کر اس کو نہیں پوجتے اور اس کا پیشاب نہیں پیتے؟ کیا مسلمانوں اور ہندوؤں کے ’’ہیروز‘‘ ایک دوسرے سے الگ نہیں؟ کیا مسلمانوں اور بھارت کے ہندوؤں کا لباس ایک جیسا ہے؟ کیا ان کے کھانے ایک جیسے ہیں؟ کیا ان کے کھانے ایک طرح پکائے جاتے ہیں؟ کیا آج بھی بھارت میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی بستیاں الگ نہیں ہوتیں؟ کیا شامی صاحب کا نام ’’مجیب الرحمن‘‘ نہیں؟ کیا ان کے جیسا شخص بھارتی پنجاب میں کرتار سنگھ نہیں کہلاتا؟ کیا شامی صاحب کے رہنما کا نام میاں نواز شریف نہیں اور بھارت میں ان جیسا شخص ’’ہر بھجن‘‘ نہیں کہلاتا؟ قائد اعظم نے تو ایک بیان میں یہ تک کہہ دیا ہے کہ مسلمانوں کا لوٹا بھی ہندوؤں کے لوٹے سے مختلف ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے لوٹے میں ٹینٹو ہوتا ہے اور ہندوؤں کے لوٹے میں ٹینٹو نہیں ہوتا۔ شامی صاحب خدا کا خوف کریں مسلمانوں کے آسمان اور ہندوؤں کی زمین کو ایک نہ کریں۔ ماشا اللہ میاں نواز شریف کو سیاست کا ’’داراشکوہ‘‘ قرار دیا جارہا ہے۔ کیا مجیب الرحمن شامی صاحب صحافت کے داراشکوہ بننا چاہتے ہیں۔ وہ داراشکوہ جسے ہندوؤں کے اپنشد قرآن سے برترنظر آتے تھے۔ کہیں خدانخواستہ شامی صاحب کو بھی گیتا قرآن یا احادیث کے مجموعوں سے برتر تو نظر نہیں آنے لگی؟ غور کیا جائے تو یہ میاں نواز شریف اور شامی صاحب کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل آصف غفور نے چند روز پیشتر فرمایا تھا کہ ہمارے لیے افراد سے زیادہ اہم ادارے ہیں اور اداروں سے زیادہ اہم ریاست ہے۔ اتنا کہہ کر جنرل صاحب نے گونگے کا گڑ کھالیا۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ ضرور کہتے کہ ریاست سے بھی زیادہ اہم اس کا نظریہ ہے۔ وہ نظریہ جس نے ریاست پاکستان کو تخلیق کیا۔ یہاں میر کا ایک شعر یاد آگیا۔ میر صاحب نے کہا ہے کہ
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
اس بات کا مطلب واضح ہے۔ نظریہ نہ ہوتا تو ریاست پاکستان بھی نہ ہوتی۔ مگر نظریہ نہ جنرل آصف غفور کو یاد آیا نہ شامی صاحب اس کے قائل نظر آتے ہیں۔ انہیں بھارت کے ہندوؤں اور پاکستان کے مسلمانوں میں ’’بودوباش‘‘ اور ’’انداز و اطوار‘‘ کا ’’معمولی سا فرق‘‘ دکھائی دیتا ہے۔ یہ حقیقت عیاں ہے کہ شامی صاحب میاں صاحب کے ’’صحافتی عاشقوں‘‘ میں سے ہیں اور انہیں اس کا پورا حق حاصل ہے۔ مگر وہ کم از کم برصغیر کے مسلمانوں کے مذہب، تہذیب، تاریخ اور اس نظریے کی تو تذلیل نہ کریں جس نے ریاست پاکستان کو جنم دیا۔ یہ نظریہ نہ ہوتا تو شامی صاحب متحدہ ہندوستان میں ’’اخبار‘‘ کیا چار بوتلوں کی ’’بار‘‘ کے بھی مالک نہ ہوتے۔ پاکستان کے نظریے نے پاکستان بنا کر معجزہ کر ڈالا۔ کوئی وزیراعظم بن گیا، کوئی جرنیل کہلایا، کوئی تاجر قرار پایا، کسی کو دنیا صنعت کار کہتی ہے، کوئی میڈیا ٹائی کون بن بیٹھا ہے۔ پاکستان کا نظریہ نہ ہوتا تو پاکستان بھی نہ ہوتا، پاکستان نہ ہوتا تو بڑے بڑے لوگ متحدہ ہندوستان میں کچھ بھی نہ ہوتے۔
شامی صاحب کے کالم کے مذکورہ بالا اقتباس میں یہ تاثر بھی موجود ہے کہ شامی صاحب بہت بڑے ’’آئین پرست‘‘ ہیں۔ چناں چہ اس لیے وہ نوجوانوں کی اس تشویش کو اہم سمجھتے ہیں کہ ہندوستان میں آئین پرستی ہورہی ہے اور پاکستان میں آئین کی کوئی اوقات ہی نہیں۔ لیکن ایسا کیوں ہورہا ہے اس سوال کے جواب کے لیے شامی صاحب کی ’’ذاتی تاریخ‘‘ پر ایک سرسری سی نظر ڈال لینا کافی ہے۔
یادش بخیر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک زمانہ جنرل ضیا الحق کا بھی تھا۔ جنرل ضیا کے نزدیک آئین کی کوئی اوقات ہی نہ تھی۔ انہوں نے ایک بار آئین کا مذاق اڑاتے ہوئے آئین کو کاغذ کا ٹکڑا قرار دیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ شامی صاحب جنرل ضیا الحق کے پرستار تھے۔ انہیں کبھی جنرل ضیا کی آئین دشمنی پر اعتراض کرتے نہ دیکھا گیا۔ بلکہ جنرل ضیا الحق حادثے کا شکار ہوئے تو شامی صاحب نے 19 اگست 1988ء کے نوائے وقت میں شائع ہونے والے کالم میں لکھا۔
’’انہوں نے طویل مارشل لا کے بعد وطن عزیز کو جمہوری راستے پر ڈالا۔ ان کے غرض مند مخالف اس جمہوریت کا منہ چڑاتے رہے۔ اسے مارشل لا ثابت کرنے کے لیے زور لگاتے رہے۔ اس کی آزادیوں کا فائدہ اٹھا کر بھی آزادیوں کے فقدان کا رونا روتے رہے۔ انہیں 1990ء تک کمانڈر انچیف رہنے کا دستوری حق حاصل تھا۔ اس حق کو فوجی اقتدار سے تعبیر کیا جاتا رہا۔ لیکن انہوں نے جان دے کر اپنے مخالفین کو بے ہتھیار کردیا ہے۔ ان کے بعد کسی جرنیل نے اقتدار نہیں سنبھالا۔ سینیٹ کے منتخب چیئرمین نے دستور کے مطابق صدارت کا حلف اٹھایا ہے۔ گویا موجودہ سیاسی عمل پر کسی وردی کا سایہ بھی نہیں رہا۔ ضیا الحق کا یہ زمانہ ایسا ہے کہ اس پر مٹی نہیں ڈالی جاسکتی۔ اب دھول نہیں اڑائی جاسکتی۔ انہوں نے جان دے کر ناقابل تردید ثبوت فراہم کردیا کہ ان کا عہد دستوری عہد تھا۔ وہ آئین کو حکمران بنانے میں کامیاب ہوچکے تھے‘‘۔
(کالم نگاروں کی قلابازیاں۔ از ڈاکٹر محمد فاروق۔ صفحہ 233۔ آگہی پبلی کیشنز۔ لاہور، سن اشاعت 2000ء)
آپ نے دیکھا شامی صاحب 1988ء میں جنرل ضیا الحق جیسے فوجی آمر کو جمہوریت پسند اور آئین پرست قرار دے رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ جنرل ضیا الحق کا عہد ایک ’’دستوری عہد‘‘ تھا۔ اور آج جب نہ ملک میں کوئی مارشل لا ہے، نہ ملک پر کوئی فوجی آمر مسلط ہے تو انہیں نوجوانوں کے توسط سے خیال آرہا ہے کہ ملک میں دستور شکنی کیوں ہورہی ہے اور ہم بحیثیت ایک قوم کے دستور کی ’’اہمیت’’ کا ’’ادراک‘‘ کرنے میں کیوں ناکام ہیں؟۔ غور کیا جائے تو ان سوالات کا جواب خود شامی صاحب کے کردار و عمل میں موجود ہے۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جب ملک کے دانش ور اور صحافی فوجی آمر کے عہد کو ’’دستوری عہد‘‘ کہیں گے اور مفادات بدل جانے کے بعد سول عہد میں آئین شکنی تلاش کریں گے تو پھر قوم میں آئین کی محبت اور اس کی خلاف ورزی پر ردِعمل کیوں پیدا ہوگا؟۔ عربی ضرب المثل ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتی ہے۔ یعنی قوم کے بالائی طبقے پہلے خرابی سے دوچار ہوتے ہیں اور عام لوگ انہیں دیکھ کر خرابی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے دانش وروں اور صحافیوں میں ضمیر نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ ان کا ضمیر ان کا مال، سیاسی یا گروہی مفاد ہے۔ مذہب، آئین اور جمہوریت نہیں۔ چناں چہ ان کا مفاد ہوتا ہے تو انہیں فوجی آمریت میں جمہوریت اور آئین پرستی کے ’’جلوے‘‘ نظر آتے رہتے ہیں اور ان کا مفاد نہ ہو تو غیر فوجی عہد میں انہیں ہر طرف سازش ہی سازش نظر آنے لگتی ہے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ میاں ’’نوٹ‘‘ اور ’’کھوٹ‘‘ سے عزت حاصل کرنے والے میاں نواز شریف ’’ووٹ‘‘ کی عزت کی بات کررہے ہیں۔ حالاں کہ ووٹ جمہوریت کا محض ایک پہلو ہے۔ جمہوریت کا زیادہ بنیادی پہلو یہ ہے کہ جمہوریت خاندانی اور موروثی نہیں ہوتی اور میاں نواز شریف کی جمہوریت خاندانی اور موروثی ہے۔ جمہوریت کا دوسرا پہلو جماعتوں کے نظم میں جمہوریت کی موجودگی ہے اور نواز لیگ کی داخلی صفوں کو جمہوریت چھو کر بھی نہیں گزری۔ جمہوریت کا ایک اہم پہلو ’’مشاورت‘‘ ہے اور میاں صاحب کسی اور سے کیا اپنی کابینہ سے بھی مشاورت کرتے نہیں دیکھے گئے۔ جمہوریت کا ایک پہلو آزادئ رائے کا احترام ہے اور میاں نواز شریف صحافیوں کی آرا کو خریدنے کے حوالے سے ’’بدنام زمانہ‘‘ ہیں۔ جمہوریت کا ایک پہلو حریفوں کے حق اقتدار کو تسلیم کرنا ہے اور میاں نواز شریف نے جونیجو سے بے نظیر تک اور بے نظیر سے راجا پرویز اشرف تک کسی کے حق اقتدار کو تسلیم نہیں کیا۔ جب میاں صاحب یہ سب کام کرلیں گے تو پھر وہ ووٹ کی عزت کے لیے نعرے بازی کرتے ہوئے اچھے لگیں گے کہ کتنی عجیب بات ہے کہ مجیب الرحمن شامی اور ان جیسے لوگ میاں صاحب کی محبت میں جمہوریت، جمہوریت کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ ملک کے نظریے کی عزت نہیں کرتے ’’شریفا نہ جمہوریت‘‘ کے سلسلے میں ان کے واویلے پر کوئی معقول شخص کیوں توجہ دے گا؟۔