کالا دھن سفید کرا لو

395

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ جمعرات کو اپنی پہلی پریس کانفرنس میں ٹیکس ایمنسٹی (عافیت) کے نام پر کالا دھن سفید کرنے کے طریقوں اور آف شور کمپنیوں کو جائز قرار دینے کے لیے 5نکاتی اسکیم متعارف کرا دی ہے۔وزیر اعظم نے بتایا کہ اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کو مکمل طور پر قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔ اسکیم کے مطابق بیرون ملک دولت اور غیر قانونی اثاثے ظاہر کرنے کے لیے صرف ایک بار 5فیصد تک جرمانہ ادا کریں، نیب قوانین سے استثنا حاصل ہو جائے گا۔ کالے دھن کو سفید کرنے کی ایسی اسکیم پہلے بھی متعارف کرائی جا چکی ہے چنانچہ اب بھی کالا دھن رکھنے والوں کے لیے سہولتوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کالا دھن رکھنے اور بیرون ملک غیر قانونی اثاثے بنانے والوں کو قانون کے دائرے میں لا کر سزائیں دی جائیں لیکن ایک کمزور حکومت یہ کام نہیں کرسکتی جب کہ دوسری طرف کالے دھن اور بیرون ملک اثاثے رکھنے والے بہت طاقت ور ہیں ۔ کب سے یہ شور مچ رہا ہے کہ بیرون ملک آصف زرداری اور نواز شریف کے اثاثے موجود ہیں، زرداری نے اربوں روپے بیرون ملک بینکوں میں رکھے ہوئے ہیں، برطانیہ میں سرے محل کا بڑا چرچا رہا اور کچھ بھی ثابت نہیں کیاجاسکا۔ اس اسکیم سے تمام کالے چور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ حکومت پاکستان کٹھن معاشی صورت حال سے گزر رہی ہے اور اس اسکیم کا مقصد بھی کچھ پیسا کمانا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر نیچے گر رہے ہیں اور ڈالراوپر چڑھتا جارہا ہے۔ وزارت خزانہ نا اہلوں کے ہاتھ میں ہے، انہی میں نے کسی نے وزیر اعظم کو یہ راہ سجھائی ہے چنانچہ ن لیگ کی حکومت کے اختتامی لمحات میں ٹیکس ایمنسٹی کی اسکیم پیش کردی گئی ہے۔ گزشتہ ساڑھے چار سال میں تو معیشت کو سنبھالا دینے کی کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی گئی۔ ن لیگ کے وزیر خزانہ اور میاں نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار بیمار ہو کر لندن کے اسپتال میں جاپڑے۔ لیکن جو صورت حال ہے وہ انہی کا کارنامہ ہے۔ یہ چند دن یا چند ماہ کا کھیل نہیں ہے۔ ویسے تو اطلاعات یہ بھی ہیں کہ خود اسحاق ڈار نے بیرون ملک بڑی جائداد بنار کھی ہے، جائز یا ناجائز کا علم کسی کو نہیں۔ یورپی ممالک میں جب کسی حکومت کے آخری چند ماہ رہ جاتے ہیں تو اسے لنگڑی بطخ (Lame Duck) کہا جاتا ہے۔ یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ خود وزیر اعظم صرف 8ماہ پہلے طلوع ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم نے جس اسکیم یا پیکیج کا اعلان کیا ہے اس کی وفاقی کابینہ سے منظوری بھی نہیں لی گئی۔ ایسے منصوبے اصولاً کابینہ میں پیش کیے جاتے ہیں اور ان پر بحث مباحثہ ہوتا ہے تب کہیں جا کر حتمی شکل سامنے آتی ہے۔ لیکن وزیر اعظم نے کابینہ کو زحمت نہیں دی۔ یہ اسکیم نئے بجٹ کی آمد سے 20دن پہلے متعارف کرائی گئی ہے اور موجودہ حکومت کی مدت ختم ہونے میں بھی 55دن رہ گئے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ سارا کام عجلت میں کیا گیا ہے۔ اسکیم پیش ہونے کے بعد وزیر اعظم کے مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل فرماتے ہیں کہ اسے بہت جلد کابینہ کی منظوری کے لیے پیش کردیا جائے گا۔ مذکورہ اسکیم غالباً انہی کے ذہن کا کارنامہ ہے۔ تاہم مذکورہ اسکیم کے کچھ پہلو قابل تعریف ہیں مثلاً 12لاکھ روپے سالانہ تک آمدنی رکھنے والوں کو ٹیکس سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں 12لاکھ روپے سالانہ یا ایک لاکھ روپے ماہانہ کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ ایک عجیب فیصلہ کیا گیا ہے کہ ’’ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والے 40لاکھ روپے سے زیادہ مالیت کی جائداد نہیں خرید سکیں گے کیوں کہ پیسا چھپانے کے لیے لوگ پراپرٹی میں سرمایہ لگاتے ہیں‘‘۔ اب اگر کسی کو وراثت میں 40 لاکھ روپے یا اس مالیت کی جائداد ملی تو وہ کیا کرے گا؟ وزیر اعظم کے علم میں تو ہوگا کہ پراپرٹی میں سرمایہ لگانے والی بڑی بڑی پارٹیاں کون سی ہیں۔ وزیر اعظم نے فرمایا کہ حکومت جائداد کی اعلان کردہ قیمت سے دگنی قیمت دے کر اسے خرید سکے گی۔ کچھ سیاسی جماعتوں نے ایمنسٹی اسکیم کو مسترد کردیا ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے بھی اسکیم کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسے پارلیمان میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کمیٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ اصل اسکیم کو چھپایا جارہا ہے، یہی حال رہا تو پارلیمان کا وقار ختم ہو جائے گا۔ پارلیمان میں تو ایوان بالا یعنی سینیٹ بھی شامل ہے جس کا وقار وزیراعظم پہلے ہی مجروح کرچکے ہیں۔ لیکن کیا سارے معاملات 31مئی تک طے ہوسکیں گے؟