پاکستانی معیشت: 2013سے2018تک

پاکستانی معیشت بھی مشکلات اور آفات کی زد میں ہے اس کا ذکر ہر طرف ہورہا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اپنے اپنے خدشات کا اظہار کرچکے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان جو ایک حکومتی ادارہ ہے اس نے بھی پچھلے ہفتے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے معیشت کی اُن کمزوریوں کی نشاندہی کی جن کے نتیجے میں خدانخواستہ ایک معاشی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ اسی گھبراہٹ کے عالم میں حکومت نے روپے کی قدر میں کمی کردی جس سے آنے والے دنوں میں عوام کے لیے مختلف مسائل پیدا ہوں گے۔
ایک طرف معیشت کی یہ صورت حال ہے جس میں کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ اور تجارتی خسارہ بڑھتا جارہا ہے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہورہے ہیں، کرپشن اور بدانتظامی اپنے عروج پر ہے۔ دوسری طرف یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ حکومت نے 2013ء میں اپنے سفر کے آغاز کے وقت قوم و ملک کے ساتھ کیا دعوے کیے تھے۔ معیشت کی گاڑی کو پٹڑی پر لانے کے لیے کیا کیا دعوے کیے تھے۔ سادہ لوح عوام کو کیا کیا سہانے خواب دکھائے تھے اس سلسلے میں 2013ء کے الیکشن سے پہلے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے جس میں معیشت کی بحالی پر بہت زور دیا گیا تھا۔ زرعی اور صنعتی ترقی، بے روزگاری اور مہنگائی میں کمی، برآمدات اور ٹیکسوں میں اضافے کے لیے اونچے اونچے دعوے کیے گئے تھے۔ منشور کے آغاز میں 2013ء میں ملکی معیشت پر اس طرح تبصرہ کیا گیا ہے کہ ملک پھیلے ہوئے کرپشن، بڑھتے ہوئے افراط زر، مسلسل لوڈشیڈنگ، بے انتہا بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی غربت کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ لیکن کیا 2013ء کے مقابلے میں 2018ء میں صورت حال مختلف ہے۔ پاکستانی عوام کو تو کوئی فرق نظر نہیں آتا بلکہ کئی لحاظ سے تو صورت حال اور زیادہ ابتر نظر آتی ہے۔
بحالئ معیشت کے لیے جن بڑے بڑے اقدامات کے دعوے کیے گئے تھے اُن میں پاکستان میں سرمایہ کاری میں اضافہ یعنی مجموعی قومی پیداوار (GDP) کے 12 فی صد سے بڑھا کر 20 فی صد تک لے جانا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ کاری میں اضافہ معیشت میں جان ڈال دیتا ہے۔ لوگوں کی آمدنیوں میں اضافہ ہوتا ہے، روزگار کے مواقعے پیدا ہوتے ہیں اور ہر طرف خوشحالی نظر آتی ہے، سرمایہ کاری میں اضافے کے لیے اقدامات کی ایک لمبی فہرست منشور میں شامل ہے۔ مگر اُن پر 25 فی صد بھی عمل نہ ہوا اور آج سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 15 فی صد ہے۔ اسی طرح ٹیکسوں میں اضافے کے لیے خوشنما اعلانات کیے گئے تھے کہ نئی ٹیکس اصلاحات کے نتیجے میں مجموعی قومی پیداوار میں ٹیکسوں کی شرح 15 فی صد تک پہنچا دی جائے گی لیکن ابھی تک یہ شرح 10 سے11 فی صد تک ہے اور اس میں بڑا حصہ سیلز ٹیکس کا ہے جو ایف بی آر کے لیے ٹیکس جمع کرنے کا سب سے آسان راستہ ہے اور اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ ماہ اپریل 2018ء کے لیے پٹرول پر سیلز ٹیکس 21.5 فی صد اور ڈیزل پر 27.5 فی صد کردیا ہے یعنی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک پہنچانے کے بجائے ٹیکس کی شرح بڑھا کر یہ فائدہ حکومت کو پہنچایا جارہا ہے۔
معاشی صحت کا ایک اہم پیمانہ بجٹ خسارہ ہے دوسرے الفاظ میں آمدنی اور اخراجات میں فرق۔ یہ سیدھی سی بات ہے کہ یہ فرق جتنا زیادہ ہوگا اتنی ہی معیشت کمزور ہوگی، اسی لیے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے قرض لینا پڑے گا۔ یہ خسارہ بھی ملک کی مجموعی قومی پیداوار کے آئینے میں دیکھا جاتا ہے یعنی اسے مجموعی قومی پیداوار سے 3 سے 4 فی صد تک ہونا چاہیے۔ موجودہ حکومت نے اس خسارے کو 4 فی صد تک کرنے کا عزم کیا تھا۔ مگر حکومتی فضول خرچیاں، اللے تللے اور عیاشی و سیر و سیاحت کے باعث اخراجات بڑھتے گئے اور یہ اخراجات زیادہ تر اس طبقے پر ہوئے جو یا تو ٹیکس ادا نہیں کرتا یا بہت کم ٹیکس ادا کرتا ہے۔ چناں چہ ٹیکسوں میں کمی اور اخراجات میں اضافے کے باعث بجٹ خسارہ ملک کی جی ڈی پی کا 5.5 فی صد ہوگیا ہے جو خطرے کی گھنٹی ہے۔
اسی طرح ملکی قرضوں کا معاملہ ہے، حکومت نے 2013ء میں قرضوں کو ایک بہت بڑی برائی قرار دیتے ہوئے انہیں محدود کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا اور اس سلسلے میں اقدامات اور اصلاحات کی ایک فہرست تھی۔ مگر ہوا کیا۔ حکومت کا عمل ان پچھلے پانچ سال میں بالکل برعکس ہوا اور حکومت نے سوائے قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کرنے کے شاید کوئی کام نہ کیا، ان پانچ سال میں ملکی قرضوں میں 35 فی صد اضافہ ہوا اور یہ قرضے 13500 ارب رپے سے بڑھ کر 20,000 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ اب قرض تو کیا واپس ہوگا اس کا سود ہی ادا کرنا حکومت کے لیے درد سر ہے۔
غرضیکہ ان وعدوں اور وعدہ خلافیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ کیا یہ ختم ہوگا یا بڑھتا جائے گا یہ آنے والا وقت بتائے گا۔