مولانا الطاف حسین حالی اگرچہ سرسید کے شاگرد تھے مگر مغرب پرستی میں ان کا جوش و جذبہ سرسید کے جوش و جذبے سے بڑھا ہوا تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ حالی نے سرسید تحریک کی روح کو دو شعروں میں بیان کرکے رکھ دیا ہے۔ حالی کا پہلا شعر یہ ہے
حالی اب آؤ پیروی مغربی کریں
بس اقتدائے مصحفی و میر ہوچکی
حالی کا دوسرا شعر یہ ہے
سدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی
چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی
غور کیا جائے تو حالی کے پہلے شعر کے مصرع اولیٰ
حالی اب آؤ پیروی مغربی کریں
میں ایسی دلسوزی، ایسی سنجیدگی اور ایسی وارفتگی ہے جیسے حالی برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کو مغرب کی سمت نہیں خدا، رسولِ خدا یا الکتاب کی جانب بلا رہے ہوں۔ لیکن ظاہر ہے کہ وہ مسلمانوں کو مغرب کی پیروی کی جانب بلا رہے تھے۔ شعر کے مصرع ثانی سے معلوم ہوا کہ وہ مصحفی و میرؔ کی پیروی ترک کرکے مغربی ادب کی تقلید کا درس دے رہے تھے۔ حالی نے اپنے پہلے شعر میں مغرب کی پیروی کا نعرہ تو لگایا مگر دلیل کوئی نہیں دی۔ مگر دوسرے شعر میں انہوں نے مغرب کی پیروی کے سلسلے میں ایک دلیل بھی بیان کی ہے۔ انہوں نے صاف کہا ہے ’’چلو تم اُ دھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘۔ یعنی ہوا مشرق کی سمت لے جانے والی ہو تو مشرق کی سمت چل پڑو۔ ہوا مغرب کی سمت لے جانے والی ہو تو مغرب کی طرف دوڑ لگادو۔ بھول جاؤ کہ تم کون ہو؟ تمہارا مذہب کیا ہے؟ تمہاری تہذیب کیا ہے؟ تمہارا تصورِ حیات کیا کہتا ہے؟ تمہاری اقدار تم سے کیا کہتی ہیں؟ بس تم اس طرف چل پڑو جس طرف کی ہوا چل رہی ہو۔ چوں کہ سرسید اور حالی کے زمانے میں مغرب کی ہوا چل رہی تھی اس لیے سرسید اور ان کی پوری تحریک مغرب کی ادنیٰ غلام بن کر اس کے پیچھے ہولی اور اس نے آج تک پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو حالی نے دو شعروں میں سرسید تحریک کی روح ہی کو نہیں اس کی تقدیر کو بھی لکھ دیا تھا۔ ان باتوں کا زیر بحث موضوع سے گہرا تعلق ہے۔
سرسید کا شمار اردو کے محسنوں میں ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خطوطِ غالب میں جو سادگی اور برجستگی پیدا ہوئی سرسید نے اسے آگے بڑھایا، لیکن اردو ادب کے سب سے بڑے نقاد محمد حسن عسکری کا کہنا ہے کہ سرسید نے اردو کو اس کی گیرائی اور گہرائی سے محروم کردیا۔ خیر یہ ایک الگ ہی قصہ ہے۔ یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ سرسید کی ساری فکری و تخلیقی کاوشیں ’’اردو مرکز‘‘ تھیں اور انہوں نے کانگریس کے رہنماؤں کی اردو دشمنی دیکھ کر ہی مسلمانوں سے کہا تھا کہ وہ کانگریس کا حصہ بننے کے بجائے اپنی تنظیم بنائیں۔ اس بنیاد پر سرسید کو دو قومی نظریے کے بانی کے منصب پر فائز کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ سرسید کی مادری اور تخلیقی زبان اردو تھی چناں چہ ان کی اردو سے محبت قابلِ فہم تھی۔ ابتدا میں سرسید نے اردو کیا مقامی زبانوں کی اہمیت پر بھی اصرار کیا۔ انہوں نے لکھا:
’’ہم ایک مدت پہلے اپنی رائے ظاہر کرچکے ہیں کہ سرکاری سر رشتۂ تعلیم کی یہ ضد کہ طالب علموں کے منہ میں زبردستی انگریزی ٹھونسیں گے، ہندوستان کی عام تعلیم کی بڑی مزاحم ہے‘‘۔
ایک اور جگہ فرمایا:
’’اگر تمام علوم ہندوستان کو اس کی زبان میں نہ دیے جائیں گے، کبھی ہندوستان کو شائستگی و تربیت کا درجہ نصیب نہیں ہونے کا۔ یہی سچ ہے، یہی سچ ہے، یہی سچ ہے‘‘۔
ایک اور مقام پر سرسید نے تحریر کیا:
’’اورکوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم تمام علوم کو اپنی زبان میں نہ سیکھیں۔ فرانس، رشیا، جرمن، انگلینڈ سب ملکوں پر خیال کرلوکہ سب نے اپنی ملکی زبان میں علوم سیکھے ہیں۔‘‘
(ان اقتباساست کے لیے دیکھیے۔ افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 202-204-205)
سرسید کی تحریروں کے ان اقتباسات کو دیکھا جائے تو سرسید اردو یا مقامی زبانوں کے ’’راسخ العقیدہ حامی‘‘ نظر آتے ہیں۔ مگر حالی نے سرسید کی شخصیت، فکر اور سرسید تحریک کی روح، تہذیب اور تقدیر کو دو نکات میں بیان کردیا۔ یعنی
(1) حالی اب آؤ پیروئ مغربی کریں
(2) چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی
چناں چہ دیکھتے ہی دیکھتے سرسید نے اردو کیا تمام مشرقی زبانوں کے خلاف ’’جہاد‘‘ کا اعلان کردیا۔ وہ اپنی یہ ’’دلیل‘‘ بھی بھول گئے کہ دنیا کی تمام قوموں نے اپنی ہی زبانوں کے دائرے میں رہتے ہوئے علوم و فنون پیدا کیے ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں فرانس، روس اور جرمنی کی مثالیں بھی دی تھیں۔ مگر جو اصول مغرب کے لیے ’’درست‘‘ تھا وہ سرسید کو مشرق کے سلسلے میں ’’تادرست‘‘ نظر آنے لگا اور وہ زبانوں کے دائرے میں بھی مغرب، مغرب کرنے لگے:
’’ہمیں اپنی قوم کو انگریزی زبان کی، جس کو خدا نے اپنی مرضی سے ہم پر حکومت دی ہے اور جس کے بغیر ہم دنیا کا کوئی کام نہیں کرسکتے، بلکہ میں کہوں گا دین کی بھی خدمت نہیں کرسکتے، تعلیم دینا ہے۔ (افکارِ سرسید۔ صفحہ 200)
اس سلسلے میں سرسید نے مزید فرمایا:
’’ہماری حکمران زبان انگریزی ہے۔ ہم کیسی ہی کوشش کریں ناممکن ہے کہ ہماری زبان میں علوم پھیل سکیں۔ ترجموں کے ذریعے علوم پھیلنے کے لیے ترجموں کی زبان وہی حکمران زبان ملک کی ہونی چاہیے۔ (افکار سرسید صفحہ200)
اس موضوع کے حوالے سے سرسید نے ایک جگہ لکھا:
’’اگر ہم اپنی اصل ترقی چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی مادری زبان تک کو بھول جائیں۔ تمام مشرقی علوم کو نسیاً منسیاً کردیں (مٹادیں، بھلادیں) ہماری زبان یورپ کی اعلیٰ زبانوں میں سے انگلش یا فرنچ ہوجائے۔ ہمارے اذہان یورپین خیالات سے (بجز مذہب کے) لبریز ہوں۔ ہم اپنی قدر، اپنی عزت کی قدر، خود آپ کرنی سیکھیں۔ ہم گورنمنٹ انگریزی کے ہمیشہ خیر خواہ رہیں‘‘۔
(افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 207)
سرسید کی تحریروں کے ان اقتباسات سے سرسید کی روحانی عسرت اور ذہنی و علمی پسماندگی پوری طرح عیاں ہے۔ اردو، فارسی اور عربی مسلمانوں کی صرف علمی زبانیں نہیں تھیں۔ تہذیبی اور مذہبی زبانیں بھی تھیں۔ چناں چہ ان زبانوں کو ترک کرنے کا مطلب مذہبی، تہذیبی اور تاریخی شعور اور تشخص سے محروم ہونا تھا۔ مگر سرسید کو اس کی رَتی برابر فکر نہ تھی۔ وہ کہہ رہے تھے اردو کو بھول جاؤ، فارسی کو فراموش کردو، عربی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھو، بس ترقی کو یاد رکھو اور ترقی تم یا تو انگریزی میں کرسکتے ہو یا فرنچ میں یا کسی اور یورپی زبان میں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سرسید کو ’’ترقی‘‘ کے جوش میں ایک آدھ لمحے کے لیے مذہب کا خیال بھی آجاتا تھا مگر وہ اس امر پر غور کے لیے تیار نہ تھے کہ اگر ہم نے اردو، فارسی اور عربی اور ان زبانوں میں موجود علوم کو فراموش کردیا اور صرف مغربی زبانیں ہماری زبان پر جاری ہوگئیں تو ہم اپنی مذہبی فکر کو کیسے محفوظ کرسکیں گے۔ اس لیے کہ مغربی زبانوں میں اسلامی فکر کے سورج کی ایک کرن بھی موجود نہ تھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عسکری صاحب اور ضیا الدین لاہوری کی تحقیق یہ ہے کہ سرسید کو نہ انگریزی پڑھنی آتی تھی نہ لکھنی آتی تھی۔ انہوں نے مغربی فکر کا جو کچھ مطالعہ کیا تراجم کی مدد سے کیا۔ مگر اس کے باوجود انگریزی کے سلسلے میں ان کا جوش و جذبہ اتنا بڑھا ہوا تھا جیسے قرآن و حدیث کی زبان انگریزی ہو۔ سرسید کی نظر میں انگریزی کی اہمیت صرف اس لیے نہیں تھی کہ انگریزی جدید علوم و فنون کی زبان تھی بلکہ مذکورہ اقتباسات سے ثابت ہے کہ سرسید اصل میں اس لیے انگریزی کے عاشق تھے کہ وہ ’’حکمرانوں کی زبان‘‘ تھی۔ یعنی خدا اور رسول اللہؐ کی زبان عربی تھی مگر سرسید اس کا ذکر بھی نہیں کرتے اور انگریزی چوں کہ حکمرانوں کی زبان اور مادی ترقی کی علامت تھی اس لیے سرسید انگریزی کا ذکر اس طرح کرتے ہیں جیسے انگریزی لیلیٰ ہو اور سرسید لیلیٰ کے مجنوں۔ مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ مسلمان ابتلا میں مبتلا ہوتے ہیں تو اپنے مذہبی، تہذیبی اور تاریخی مرکز کی طرف بھاگتے ہیں۔ سرسید کا قصہ یہ ہے کہ وہ ساری زندگی اپنے مذہبی، تہذیبی، تاریخی یہاں تک کہ لسانی مرکز سے دور بھاگتے رہے۔ اس کے باوجود سرسید ’’عظیم‘‘ ہیں۔ اس کے باوجود سرسید ہمارے ’’محسن‘‘ ہیں۔
سرسید کی لسانی فکر کی پسماندگی کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ چوں کہ تمام ترقی یافتہ قومیں مغربی ہیں اس لیے ترقی صرف مغربی زبانوں ہی میں ہوسکتی ہے۔ تاریخی تجربے سے ثابت ہوگیا کہ مشرقی اقوام نے اپنی زبانوں میں علم حاصل کرکے اس مادی ترقی کے تمام مغربی ریکارڈ توڑ ڈالے جس کو دیکھ کر سرسید پر ’’وجد‘‘ کی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔ اس کی ایک مثال جاپان ہے، دوسری مثال جنوبی کوریا ہے، تیسری اور سب سے بڑی مثال چین ہے۔ مغرب نے جو ترقی ڈیڑھ سو سال میں کی ہے چین نے وہ ترقی صرف پینتیس چالیس سال میں کرکے دکھادی ہے اور وہ بھی اپنی زبان میں۔ اس زبان میں جس میں حروفِ تہجی بھی موجود نہیں۔
باقی صفحہ9نمبر1
شاہنواز فاروقی
افسوس سرسید کو اتنی سی بات معلوم نہ تھی کہ انسان کا اصل مسئلہ زبان نہیں۔ قیادت، توجہ، ترجیح اور محنت ہے۔ مگر سرسید یہ بات کیسے سمجھتے! ان کی روح غلام تھی، ان کا ذہن غلام تھا، ان کی نفسیات غلاموں کی نفسیات تھی اور غلاموں کے بارے میں اقبال بنیادی بات کہہ گئے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے
غلاموں کی بصیرت پر بھروسا کر نہیں سکتے
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا
سرسید کو تعلیم کے میدان میں انگریزی سے بڑی اُمیدیں تھیں۔ مگر انگریزی ذریعۂ تعلیم نے سرسید کی زندگی میں جو نتائج پیدا کیے انہیں دیکھ کر مغرب کی پیروی کا مشورہ دینے والے سرسید کے شاگردِ رشید، مولانا الطاف حسین حالی بھی ’’دنگ‘‘ رہ گئے۔ اور ’’چیخ‘‘ کر بولے۔
’’36 برس کے تجربے سے انہیں (سرسید کو) اس قدر ضرور معلوم ہوا ہوگا کہ انگریزی زبان میں بھی ایسی تعلیم ہوسکتی ہے جو دیسی زبان کی تعلیم سے بھی زیادہ نکمّی، فضول اور اصلی لیاقت پیدا کرنے سے قاصر ہو‘‘۔
(نقشِ سرسید۔ ازضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 56)
ظاہر ہے کہ حالی کی اس ’’علمی اور لسانی چیخ‘‘ کا سرسید کے پیدا کردہ نظامِ تعلیم پر کوئی اثر نہ ہوا اور انگریزی ذریعہ تعلیم آج بھی نکمّے، فضول اور لیاقت سے محروم کروڑوں طالب علم پیدا کررہا ہے۔ سرسید اردو کے امکانات سے مایوس تھے مگر خود سرسید نے جو کچھ کیا اردو کے دائرے میں کیا۔ سرسید کے بعد اردو نے تفسیر کا ایسا علم پیدا کیا جس پر کسی بھی زبان کو ناز ہوسکتا ہے۔ اردو نے سیرت نگاری میں بلند سطح کو چھوا، شاعری، افسانے اور تنقید کی بڑی روایت پیدا کی، برصغیر کے مسلمانوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی کارنامے انجام دیے ہوتے تو اردو نے ان کے بیان کے لیے بھی کفایت کی ہوتی۔ اردو لسانی تاریخ کا ایک معجزہ ہے مگر سرسید تو معجزات کے منکر تھے۔