محمود شام سینئر اخبار نویس ہیں‘ کالم بھی لکھتے ہیں اور بلا شبہ خوب لکھتے ہیں‘ جنرل مشرف دور کے عام انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ: ’’رمضان کا مبارک مہینہ ہے۔ آئی ایس آئی کی طرف سے افطار کا اہتمام ہے۔ مولانا فضل الرحمن موجود ہیں۔ حضرت شاہ احمد نورانی۔ قاضی حسین احمد جیسی جید ہستیاں۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احسان الحق نائب سربراہ میجر جنرل احتشام ضمیر۔ کوشش یہ ہے کہ متحدہ مجلس عمل کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدوار مولانا فضل الرحمن دستبردار ہوجائیں۔ مولانا فضل الرحمن کو پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کی حمایت بھی متوقع ہے۔ ان کے پاس مطلوبہ تعداد موجود ہے لیکن فوجی حکمراں ان کو وزارتِ عظمیٰ دینا نہیں چاہتے۔ کئی گھنٹے سے سیاسی تبادلہ خیال چل رہا ہے مولانا فضل الرحمن کے سامنے ایک فائل پڑی ہے جس کا گتا ہوا سے ہل رہا ہے مگر مولانا اس فائل کی طرف توجہ نہیں دے رہے۔ چائے کافی کا دور چل رہا ہے۔ سب حضرات چائے پینے کے لیے اُٹھتے ہیں تو مولانا غیر ارادی طور پر فائل کا پہلا ورق اُلٹتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ کسی نئی سیاسی پارٹی کی تنظیم کی فائل ہے جس پر لکھا ہوا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین پیٹریاٹ PPPPP۔ انہیں حیرت ہوتی ہے کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ فہرست میں 20 سے زیادہ نام نظر آرہے ہیں جن میں راؤ سکندر اقبال۔ فیصل صالح حیات وغیرہ نمایاں ہیں۔ پارٹی کا نیا آئین۔ نئے نکات بھی فائل کی زینت ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور ایم ایم اے کی طرف سے دستبرداری کا اعلان نہیں ہوتا۔ یہ میٹنگ بے نتیجہ ختم ہوتی ہے۔ مولانا کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس فائل کے ذریعے انہیں یہ باور کروایا گیا ہے کہ آپ کو اگر پی پی پی پی کی حمایت کا زعم ہے تو وہ پارٹی تو ٹوٹ رہی ہے۔ مولانا اگلے روز پی پی پی کے سرکردہ رہنماؤں کو اس فائل کے حوالے سے بتاتے ہیں لیکن وہ کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ حکومتی صفوں کو تشویش ہے کہ ان کے پاس مطلوبہ ووٹ نہیں ہے اپوزیشن متحد ہو کر مولانا فضل الرحمن کو وزیراعظم بنوا سکتی ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے سیکورٹی ایڈوائزر اور معتمد خاص طارق عزیز، مولانا فضل الرحمن سے ملتے ہیں۔ انہیں کہتے ہیں کہ جنرل صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ایوان صدر میں جنرل پرویز مشرف دو گھنٹے تک مولانا کو اپنا نام واپس لینے پر آمادہ کرنے کے لیے قومی اور بین الاقوامی اسباب بیان کرتے ہیں کہ آپ کو امریکا قبول نہیں کرے گا۔ مغربی دنیا نہیں تسلیم کرے گی۔ نائن الیون کے واقعات ہوئے ہیں۔ پاکستان اس جنگ میں امریکا کا اتحادی ہے۔ ہماری بہت امداد کررہا ہے۔ اس لیے پاکستان کے مفاد کا تقاضا ہے کہ آپ اپنا نام واپس لے لیں۔ یہ میٹنگ بھی بے نتیجہ رہتی ہے اگلے دن الیکشن ہوتا ہے تو حکومت اپنے اُمیدوار میر ظفراللہ جمالی کو صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیراعظم منتخب کروا پاتی ہے حالاں کہ اس میں پی پی پی کے 10 منحرفین بھی شامل ہوچکے ہیں‘‘۔
یہاں تک تو قدرے ساری باتیں درست ہیں لیکن اس سے آگے کی کہانی میں کچھ فرق ہے اس وقت نواب زادہ نصراللہ خان کی کوشش تھی کہ پیپلزپارٹی اور متحدہ مجلس عمل مل کر وزیر اعظم کا فیصلہ کریں اور نواب صاحب مولانا کے نام پر پیپلزپارٹی سے تعاون کے خواہش مند تھے اور وہ چاہتے تھے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے رابطہ ہوجائے تاکہ بات آگے بڑھائی جائے لیکن پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ کا بے نظیر بھٹو سے رابطہ ہی نہیں ہورہا تھا پھر انہی دنوں مخدوم امین فہیم کی ملاقات جنرل مشرف سے ہوئی جس کے بعد بازی پلٹ گئی تین سو انتالیس کے ایوان میں میر ظفر اللہ جمالی کو ایک سو بہتر‘ مولانا فضل الرحمن کو 89 اور شاہ محمود قریشی کو70 ووٹ ملے تھے اگر پیپلزپارٹی تقسیم نہ ہوتی تو مشکل ہوجاتی‘ اسی لیے تو متحدہ مجلس اور پیپلزپارٹی کی راہ روکنے کے لیے پیٹریاٹ گروپ وجود میں لایا گیا‘ اس وقت مولانا نے بھی اپنی لابنگ کی تھی اور کہا تھا امریکا کبھی ڈاڑھی والے کو بھی آزما کر دیکھ لے۔ مولانا فضل الرحمٰن وزیراعظم ہوجاتے انہیں روکنے کے لیے پی پی پی میں نقب لگائی گئی مولانا فضل الرحمن نے متعدد بار یہ بات بتائی کہ بے نظیر بھٹو نے ایک خط انہیں بھیجا تھا لیکن یہ خط انہیں نہیں ملا ناہید خان ہی بتا سکتی ہیں کہ وہ خط کہاں گیا اور وہ خط مولانا تک کیوں نہیں پہنچا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو تک اصل بات پہنچ جاتی تو مولانا اس وقت وزیر اعظم بن گئے تھے قومی اسمبلی میں وزارت عظمیٰ کے اس انتخابی عمل میں اعجاز الحق، مولانا اعظم طارق، علامہ طاہر القادری اور عمران خان نے حکومت کو ووٹ دیا یوں ظفر اللہ جمالی ایک ووٹ کی برتری سے وزیر اعظم بنے تھے انہیں بھی ڈیڑھ سال کے بعد قاف لیگ کی قیادت اور جنرل مشرف نے مل کر چلتا کیا ان کی جگہ پہلے عبوری طور پر شجاعت حسین وزیر اعظم بنے‘ ان کے بعد ضمنی انتخاب میں جیت کر شوکت عزیز ملک کے وزیر اعظم بنے اس اسمبلی نے پہلی بار پانچ سال کی مدت مکمل کی اس کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت آئی اس نے پانچ سال مکمل کیے اب مسلم لیگ کی حکومت اور دو ماہ کے بعد نگران حکومت قائم ہونے جا رہی ہے یہ نگران کیسے ہوں گے کس کے اشارے پر چلیں گے اور کب تک رہیں گے؟ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔