سرکاری اداے ہی کیوں خسارے میں

361

حکومت کے چلتے چلتے عدالت عظمیٰ نے پاکستان ریلوے میں 60 ارب کے خسارے کا نوٹس لے لیا اور وفاقی وزیر ریلوے، سیکرٹری اور بورڈ کے ارکان کو آڈٹ رپورٹ کے ساتھ طلب کر لیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھارتی وزیر لالو پرساد یادو کا حوالہ دیا کہ وہ انگوٹھا چھاپ ہوتے ہوئے بھی ادارے کو منافع بخش بنا گیا اس کی تھیوری ہاورڈ میں پڑھائی جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے پنجاب حکومت پر بھی ناراضگی کا اظہار کیا اور اسپتال میں گائنا کولوجسٹ کی جگہ آنکھوں کے ڈاکٹر کے تقرر پر برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت عظمیٰ کی برہمی بجا ہے۔ خصوصاً سرکار کے شعبے میں جو ادارہ چل رہا ہے اس کو یا تو خسارہ ہے یا اس میں بے تحاشا لوٹ مار ہے۔ عوام کے لیے سہولیات کم اور اس ادارے کو چلانے والوں کے بینک بیلنس زیادہ ہوتے ہیں۔ پاکستان ریلویز کو دیکھیں تو سیٹوں پر مسافر، راہداری میں مسافر، بیت الخلا کے باہر مسافر اور کبھی کبھار چھتوں پر بھی مسافر،، جبکہ ریلوے کے کرایوں کا تعین اخراجات اور منافع کو مد نظر رکھ کر کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی ریلوے خسارے میں ہے۔ اگر مسافر صرف سیٹوں پر بیٹھے ہوں اور ٹرینیں بھر کر جا رہی ہوں تو بھی ریلویز کو منافع ہونا چاہیے،، تو پھر یہ 60 ارب روپے کا خسارہ کیوں ہو رہا ہے اور صرف سرکاری اداروں کو خسارہ کیوں ہوتا ہے۔ یہ بات سمجھنے کے لیے عام آدمی کو آڈٹ رپورٹ دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف پاکستان اسٹیل، پی ٹی سی ایل، کے ای ایس سی اور پی آئی اے کا حال دیکھ لیں۔ ان اداروں کو کس طرح تباہ کیا گیا۔ سرکار نے پی ٹی سی ایل کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کیا یہ ادارہ ایک زمانے میں جاپان کے مماثل کام کر رہا تھا۔ عرب دنیا پی ٹی سی ایل یا پاکستان ٹیلی گراف سے افرادی قوت اور ماہرین متعار لیتی تھی۔ 1974 سے 1990 تک اس محکمے کے ہزاروں افراد سعودی عرب اور امارات میں خدمات انجام دیتے رہے۔ پی آئی اے نے امارات ائر لائن کو بنایا۔ پاکستان اسٹیل کی پیداواری صلاحیت کئی ترقی یافتہ ممالک کی اسٹیل ملز سے زیادہ تھی۔ کے ای ایس سی جب تک سرکار کے قبضے میں تھی اس میں سرکاری مداخلت تھی اسے خسارے میں قصداً لایا گیا اور بیچ کھایا گیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ تمام ادارے جنہیں اس لیے فروخت کیا گیا تھا کہ یہ خسارے میں ہیں نجی شعبہ انہیں کامیابی سے چلائے گا۔۔۔ ان میں سے کوئی ادارہ عوام کو خدمات ہی پوری نہیں دے پا رہا۔۔۔ آج کل کراچی میں کے الیکٹرک نے اندھیر مچا رکھی ہے۔ دس سال قبل جو لوگ 12 سو روپے سے لے کر ساڑھے 3 ہزار روپے بل ادا کرتے تھے آج وہ تین ہزار سے 30 ہزار تک ادا کر رہے ہیں۔ جبکہ لوڈ شیڈنگ کم ہوتی تھی اور سرکاری شعبہ ہونے کے ناتے ادارے کی گرفت کی جا سکتی تھی۔ اب نجی شعبے میں جانے کے بعد کوئی صارف کے الیکٹرک کے پنجے میں پھنس گیا تو اسے مجرموں جیسے سلوک کا سامنا ہوتا ہے۔ گرفتاری کی دھمکی۔ بجلی کاٹنے اور جرمانے جیسی سزائیں الگ۔ اور اگر زیادہ بل بھیج دیا تو عدالت بھی ان کے ساتھ کھڑی ہو کر حکم جاری کر دیتی ہے کہ پہلے بل ادا کر دیں پھر مقدمہ لڑ لیں۔۔۔ پھر مقدمہ کس بات کا؟ پاکستان اسٹیل کو تباہ کرنے کے لیے اس کی یونین اور سوئی سدرن گیس کو استعمال کیا گیا۔ یونین کے ذریعے بھرتیاں کی گئیں اور سوئی گیس کے ذریعے گیس کی سپلائی کم کر کے پاکستان اسٹیل کی پروڈکشن بند کرا دی گئی۔ جواز دیا گیا کہ پاکستان اسٹیل سوئی گیس کا نا دہندہ ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ بڑے نا دہندہ کے الیکٹرک کو 70 ارب روپے سے زیادہ کا نا دہندہ ہونے کے باوجود گیس کی فراہمی جاری ہے۔ آج کل اضافی گیس کے مسئلے پر تنازع ہے اور کے الیکٹرک نے صاف ہری جھنڈی دکھا دی ہے کہ ہم طلب پوری نہیں کر سکتے۔ اب کون ان سے خریداری کا معاہدہ طلب کرے کہ بتاؤ کن شرائط پر ادارہ خریدا تھا۔۔۔ وزیراعلیٰ بھی بے بس نکلے۔ اب پاکستان ریلویز کے 60 ارب کے خسارے کا از خود نوٹس تو لیا گیا ہے لیکن کہیں اس از خود نوٹس کا خود بخود یہ مطلب نہ نکل آئے کہ اس بھی فروخت کر دو،،، کیونکہ کہا جائے گا کہ حکومت کب تک اربوں روپے خسارے بھرتی رہے گی۔ لیکن اگر عدالت عظمیٰ سنجیدہ ہے تو خسارے کے اصل اسباب کو سامنے لا کر اقدامات تجویز کرے،، کوئی وجہ نہیں کہ ریلویز خسارے سے نکل نہ آئے،، آخر کیا وجہ ہے کہ کراچی سے پشاور تک ڈبل ٹریک آج تک مکمل نہیں ہو سکا۔ وسائل کا رُخ اِدھر اُدھر کیوں ہوتا رہتا ہے۔ مال گاڑیوں کا نظام بہتر ہونے سے شاہراہوں پر کنٹینرز اور بڑے ٹرالرز کا دباؤ کم ہو جائے گا۔ عدالت عظمیٰ نے نوٹس لیا ہے تو اس کے سامنے بھی ٹرالر اور ٹرک مافیا کے مفادات آجائیں گے۔ لیکن خدارا ہر خسارے اور بد نظمی کا علاج نجکاری میں نہ تلاش کیا جائے۔ جہاں تک لالو پرساد یادو کی تھیوری پڑھانے کا تعلق ہے تو چیف صاحب لالو کے خلاف پٹنہ کی عدالت کا تازہ فیصلہ بھی پڑھ لیں جن میں اسے کرپشن پر سزا سنائی گئی ہے۔ کہیں لالو کی کرپشن کی تھیوری ہمارے حکمران نہ پڑھ لیں۔ لالو پر تین کروڑ 70 لاکھ روپے خود برد ثابت ہو گئی تھی۔ اتنے تو ہمارا ایک افسر کھا جاتا ہے۔