مرزا اسد اللہ خان غالب اردو کے قادر الکلام شاعر تھے۔ اُن کا ایک شعر زبان زدعام ہے۔ ’’صادق ہوں اپنے قول کا! غالب خدا گواہ، کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے‘‘۔ یعنی غالب نے اعتراف کیا کہ اس معاملے میں میں سچ بول رہا ہوں اور ساتھ ہی بشری کمزوری کا اعتراف بھی کرلیا کہ جھوٹ کی عادت نہیں ہے۔ دنیا میں بہت سے ایسے لوگ گزرے ہیں جن کی پوری زندگی نیک نامی میں گزاری، مگر کہیں کہیں بشری کمزوری کے تحت وہ جھوٹ بول گئے۔ اس کے برعکس ایسے لوگوں کی مثالیں بھی کم نہیں جو بدکردار مشہور تھے لیکن سچ بولتے تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی عدلیہ ازخود کسی کو صادق اور امین قرار دے سکتی ہے؟ عدالت ثبوتوں اور گواہوں کی بنیاد پر کسی خاص معاملے میں یہ تو کہہ سکتی ہے کہ فلاں معاملے میں یہ شخص صادق اور امین نہیں رہا۔ لیکن تاحیات کسی کو صادق اور امین ڈکلیئر کرنا یا نہ کرنا عدلیہ کا کام نہیں ہے اور یہ صورت حال اُس وقت دلچسپ ہوجاتی ہے جب عدلیہ ایک ایسے شخص کی پٹیشن بار با سماعت کے لیے قبول کرلیتی ہے جو بار بار عدلیہ سے تحریری اور زبانی کذب بیانی کی معذرت کرتا رہا ہو؟ آج کل جس طرح عدلیہ صادق اور امین کے سرٹیفکیٹ تقسیم کررہی ہے راقم الحروف کی ناقص رائے میں یہ ایک خطرناک رجحان ہے اور اس کے نتائج بہت ہی خوفناک ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بات عدلیہ پر بھی چسپاں کی جاسکتی ہے۔ عزت مآب چیف جسٹس صاحب بخوبی جانتے ہیں کہ ایمان علی کے کیس کو لمبا کرنے اور اُسے ملک سے فرار کروانے میں عدلیہ کا بھی ہاتھ ہے۔ اس کے علاوہ ایگزیکٹ کیس میں ایڈیشنل جج کے پچاس لاکھ روپے رشوت لینے کا معاملہ پوری دنیا دیکھ چکی ہے۔ عدلیہ انصاف فراہم کرے، فیصلہ سنائے، عدلیہ اگر صادق اور امین کے چکر میں پڑ گئی تو 75 فیصدی سے زاید اعلیٰ اور ماتحت عدالتوں کے جج فارغ ہوسکتے ہیں۔ بات کڑوی ضرور ہے لیکن حقیقت یہی ہے۔
عمر محی الدین، میٹھادر کراچی