تحفظ حقوق نسواں کے بغیر روشن معاشرے کا قیام ممکن نہیں

162

ہر سال 8 مارچ دنیا بھر میں ’’عالمی حقوق نسواں‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے، دنیا کی قدیم تہذیبوں کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ دنیا کی پوری تاریخ خواتین کے ساتھ روا رکھے گئے ظلم و جبر کے ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں مرد کی حکمرانی میں عورت کے بنیادی و معاشرتی کردار کو نظر انداز کرتے ہوئے کمتر مخلوق جانا۔ یہودیوں نے ناقص العمل سمجھا۔ مشرق نے نجس و حقیر کہا، ایرانیوں نے فتنہ فساد کی جڑ قرار دیا، جبکہ چینی اور جاپانی اسے ناقابل اعتبار سمجھتے رہے۔ ہندوازم میں عورت کو شوہر کی چتا کے ساتھ نذر آتش کیے جانے کا گھناؤنا فعل کیا جاتا رہا، اسلام سے پہلے عرب معاشرے میں منحوس قرار دے کر زندہ درگور کی جاتی رہی، حتیٰ کہ آج کے اس تہذیب یافتہ دور میں امریکا، یورپ جیسے ترقی یافتہ معاشرے نے عورت کو فحاشی اور عیش و عشرت کا سامان بنا کر اس کی تذلیل و تشہیر کرتے ہوئے اشتہارات میں مصنوعات کی تشہیر کا ذریعہ بنا ئے رکھاہے۔
دنیا کی نصف آبادی ہونے کے ناتے خواتین کو بھی آزادی سے جینے کا مساوی حق حاصل ہونا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے آج بھی دنیا کی ہر تیسری عورت تشدد کا شکار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صنف نازک کے ساتھ ہمدردی، خیر خواہی سمیت اس کے جذبات کی قدر کی جائے اور دنیا بھر میں عورتوں کے ساتھ بہیمانہ برتاؤ، مظالم و تشدد کے خاتمے کے لیے موثر تدابیر کی جائیں۔ عورت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ذمے داریاں اسی طرح نبھائے جس طرح اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔
عشرت جہاں، شادمان ٹاؤن