بھائی جیل ہمیشہ سے ظالم کے نام سے مشہور ہے جس کے نام سے بھی عام آدمی کو خوف آجاتا ہے۔ اس خوف کی دنیا میں آئی جی جیل خانہ جات نصرت منگھن کے حکم پر مشہور ظالم سپرنٹنڈنٹ حسن سہتو کو لگایا گیا جس نے ظلم کی انتہا کردی ہے۔ جیل کسٹڈی ہونے والے قیدیوں سے لاکھوں روپے لیے جاتے ہیں، نہ دینے پر انہیں مارا پیٹا جاتا ہے، اُن سے پورے جیل میں پونچھا لگوایا جاتا ہے اور انہیں طرح طرح سے ٹارچر کرکے پیسے لیے جاتے ہیں اور پیسے ادا کرنے پر جیلر احساس قیدیوں کو ان کی پسند کی جگہ منتقل کردیتا ہے اور پیسے نہ دینے والے قیدیوں کو امیر قیدیوں کا نوکر بنا کر ان سے مشقت کروائی جاتی ہے۔ جیلر احساس قیدیوں کو نشہ آور اشیا پیسوں میں لا کر دیتا ہے۔ کراچی سینٹرل جیل میں ظلم کی انتہا کی جارہی ہے، قیدیوں کے جیل مینول میں موجود سہولت بھی نہیں دی جارہی ہے جلا ہوا کھانا دیا جاتا ہے، چائے کے نام پر پتلا پانی دیا جاتا ہے، کچی روٹی دی جاتی ہے اور اگر یہ کھانا لینے سے کوئی انکار کردے تو جیلر عبدالخالق خلدی مارتا ہے، ماں بہن کی گالیاں دیتا ہے اور پورے جیل میں پونچھا لگواتا ہے اور اگر کچھ قانون جاننے والا قیدی ان کے خلاف ہائی کورٹ سندھ میں اپیل لگاتا ہے تو اسے سپرنٹنڈنٹ حسن سہتو اندرون سندھ جیل میں منتقل کردیتا ہے جہاں نہ کیس لتا ہے نہ گواہ آتے ہیں، جس سے برسوں کیس لٹک جاتا ہے۔
عبدالخالق خلدی جیل میں موجود چکر کا جیلر ہے، احسان خاور انچارج ہے، ڈپٹی سپرنٹنڈ شہاب الدین سپرنٹنڈنٹ حسن سہتو حوالدار یونس، سپاہی طارق فنٹر، فوجی، آصف وغیرہ نے ظلم کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ مذہبی قیدیوں کو ایک ہفتہ میں 4 دفعہ ایک دن میں 15 منٹ کے لیے بیرک سے نکالا جاتا ہے، مطلب کے ایک ہفتے میں ایک گھنٹے کے لیے کھولا جاتا ہے، قیدی طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہیں، ہسپتال بھیجا نہیں جاتا ایک ہفتے میں ایک دن جمعہ کو ملاقات کروائی جاتی ہے۔ 30 منٹ کے لیے اس میں بھی آکر تنگ کیا جاتا ہے، طرح طرح سے باہر ملاقات پر رکی خاتون اور مرد سے بدتمیزی کی جاتی ہے، ہر طرح سے تنگ کیا جاتا ہے، قیدی کو جانوروں سے بدتر رکھا جارہا ہے۔ ایک مہینے میں دو دفعہ سپرنٹنڈنٹ حسن سہتو کا چکر لگتا ہے، چکر والے دن صبح سے قیدیوں کو دروازے کے سامنے فقیروں کی طرح بیٹھا دیا جاتا ہے اور چکر کے نام پر سارا دن ذلیل کیا جاتا ہے۔ ملاقات پر ہتھکڑی لگا کر ملاقات پیش کروایا جاتا ہے۔
بھائی جان، سینٹرل جیل کراچی