سیاسی ڈفلی

330

شیخ رشید نے چپ شاہ کا روزہ رکھا تھا تو ’’سخن گرم تمام اہل سخن بھول گئے‘‘ والا معاملہ درپیش رہا، شاید ان کے پیر و مرشد کی قوت سماعت کمزور ہے وہ سننے سے زیادہ بولنا پسند کرتے ہیں مگر اب شیخ صاحب کو اذنِ سخن مل گیا ہے۔ ان کی تازہ سخن سازی کے مطابق عدلیہ جوڈیشل مارشل لا لگا کر عام انتخابات کرائے۔ مارشل لا فوجی ہو یا عدالتی سیاست دانوں کے لیے امام ضامن کا درجہ رکھتی ہے۔ جمہوریت کا ورد ان کی سیاسی ڈفلی ہے۔ شیخ صاحب نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا ہے کہ عمران خان کو نگران وزیراعظم بنایا جائے۔ شاید وہ خود وزیراعظم بننا چاہتے ہیں، خواب اور خواہش پر کوئی پابندی نہیں مگر عمران خان کو وزیراعظم بننے سے روکنے کی منصوبہ بندی ضرور کہا جاسکتا ہے۔
عادل اعظم کا فرمان ہے کہ قانون میں جوڈیشل مارشل لا کی گنجائش نہیں وہ جمہوریت کا قتل برداشت نہیں کرسکتے، الیکشن ضرور ہوں گے اور بروقت ہوں گے۔ کاش! وہ قوم کو عدالتوں میں دھکے کھانے اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کو بھی ناقابل برداشت قرار دیتے۔ سوچنا پڑے گا کہ ان کی ہمدردیاں قوم کے بجائے سیاست کاروں کے لیے کیوں وقف ہیں۔ وہ انصاف کی فراہمی کے بجائے الیکشن کرانے کی یقین دہانی کیوں کرارہے ہیں؟۔ مختلف اداروں کا دورہ فرما کر ان کے ستائے ہوئے افراد کی شکایات کی سماعت فرما رہے ہیں مگر عدالتوں کے ستائے ہوئے سائلین کی فریاد پر کان دھرنے کی زحمت کیوں نہیں کرتے!!! عدالتوں میں سائلین کے ساتھ جو ظلم و ستم روا رکھا جارہا ہے اس کا سدباب فرمانے سے کیوں گریزاں ہیں؟ کئی کئی ماہ بعد پیشی پر آئے ہوئے سائلین کے ساتھ پیشی پیشی کا دل آزار کھیل کیوں کھیلا جاتا ہے۔ اعلیٰ عدالتیں کبھی پیشی ملتوی کردیتی ہیں اور کبھی لیفٹ اوور کا ہتھوڑا مار کر سائلین کو نڈھال کردیتی ہیں مگر معروف وکیل اور پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن پر عدالت میں پیش نہ ہونے پر دس ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا جاتا ہے اور وہ جرمانہ ادا کرنے سے انکار کردیتے ہیں تو چیف جسٹس پاکستان کے فرزند ارجمند اپنی جیب خاص سے ادا کردیتے ہیں اور اسے جوڈیشل ایکٹورزم کا نام دیا جاتا ہے۔ واہ! کیا بات ہے!۔
شیخ صاحب سے جوڈیشل مارشل لا کی وضاحت طلب کی جاتی ہے تو فرماتے ہیں یہ تو میرا احسان ہے کہ مارشل لا کے بجائے جوڈیشل مارشل لا کی تجویز دی ہے۔ شیخ صاحب کو شیخ ممنون کہا جائے تو مناسب ہوگا کیوں کہ وہ اکثر ایسا کرتے رہتے ہیں۔ موصوف نے ایک محترم خاتون کو پیلے لباس میں دیکھ کر پیلی ٹیکسی کہہ کر قوم پر احسان فرمایا تھا۔ الیکٹرونک میڈیا پر بڑی شدومد سے یہ سوال کیا جارہا ہے کہ شیخ رشید نے جوڈیشل مارشل لا کی تجویز کیوں پیش کی اور اس کا پس منظر کیا ہے؟ حالاں کہ اس کے پس منظر اور پیش منظر سے سبھی واقف ہیں۔ بزرگ سیاست دان جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف سے کنارہ کش ہونے کی بڑی اور اہم وجہ یہ بتائی تھی کہ عمران خان بڑے وثوق سے کہتے تھے کہ مقتدر قوتیں جوڈیشل مارشل لا لگا کر ان کو وزیراعظم بنانے کی راہ ہموار کریں گی۔ تو کیا واقعی ایسا ہی ہوگا؟ حالات اور واقعات تو عمران خان کے بیانیے کی تصدیق کررہے ہیں لیکن آنے والا وقت بتائے گا کہ یہ بیانیہ ڈاکٹرائن بن سکتا ہے یا صرف عمران خان کی خواہش ہی ہے جسے لگام ڈالی جائے گی یا سرکشی کا موقع دیا جائے گا۔ عمران خان بارہا اس خواہش کا اظہار کرچکے ہیں کہ میاں صاحب جانے دو میری باری بھی آنے دو۔ گویا وہ اپنی باری کے منتظر ہیں خدا جانے یہ باری باری کا کھیل کب ختم ہوگا۔ مقتدر قوتوں کے رویے سے تو یوں لگتا ہے جیسے قوم کے ختم ہونے تک یہ کھیل جاری رہے گا۔