صرف ایک شخص کے لیے؟

281

اداروں کے درمیان جنگ جاری ہے اور ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی قوم کا پیسہ اور سارا وقت ایک آدمی کو نکالنے اور واپس لانے کی کوششوں پر ضائع کیا جا رہا ہے ۔ ایک ادارہ اسے نکالتا ہے دوسرا اسے بچانے کے لیے میدان میں آ جاتا ہے ۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ قومی اداروں اور مناصب کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ تازہ ترین وار دات ٹیکس ایمنسٹی اسکیم ہے جس کا آرڈیننس صدر مملکت نے ایسے وقت پر جاری کیا ہے جب سینیٹ کا اجلاس طلب کیا جا چکا تھا ۔ ایک روز قبل آرڈیننس جاری کرنے کا بھی کوئی خاص مقصد ہو گا ۔ اس اسکیم کا فائدہ یہ ہوگا کہ تمام ناجائز اثاثے صرف 5 فیصد ٹیکس ادا کر کے جائز کرا لیے جائیں گے ۔ بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ اس اسکیم کے ذریعے مزید کچھ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا ۔ کچھ لوگوں کو ٹیکس کی چھوٹ بھی مل گئی ہے لیکن در پردہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں جسارت نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ آرڈیننس اس انداز میں تشکیل اور تحریر کیا گیا ہے کہ اس سے صرف کاروباری طبقہ فائدہ اٹھائے۔ بظاہر اس میں کوئی قباحت نہیں لیکن وزیر اعظم کے منصب سے نا اہلی اور کسی سیاسی جماعت کی قیادت کے لیے نا اہل قرار پانے کے بعد میاں نواز شریف اب ایک کاروباری شخصیت رہ گئے ہیں ۔ ان کی طرح پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین بھی اب صرف کاروباری شخصیت ہیں ۔ اب غیر ملکی اثاثے ظاہر کر کے 5فیصد ٹیکس دیا جائے گا اور سب جائز ہو جائے گا ۔ پاکستان سے باہر موجود غیر منقولہ جائداد پر تین فیصد ٹیکس دیا جائے گا اور سب جائز قرار پائے گا ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا ۔ یعنی یہ کوئی ایسا کام ہے جس کے لیے ان کا نام چھپایا جائے لیکن اگر ہ یہ اچھی بات ہے تو۔۔۔ سب کے سامنے نام آنے چاہییں کہ دیکھو فلاں بڑے آدمی نے بھی اپنے اثاثے ظاہر کر دیے اس سے دوسروں کو بھی ترغیب ہو گی ۔ لیکن نام صیغہ راز میں رکھنے کا اصل مقصدیہ ہے کہ قوم کو پتا ہی نہ چلے کہ ان کی دولت لوٹ لوٹ کر کن لوگوں نے غیر ملکی اثاثے بنائے تھے اور اب صرف 5 فیصد دے کر وہ ٹیکس گزار بن جائیں گے ۔ یہاں بھی وہی کھیل ہو گا کہ ایک کروڑ پاؤنڈ کی جائداد ایک لاکھ کی ظاہر کر کے اس کا 5 فیصد ادا کر دیا جائے گا۔۔۔ پھر پکڑتے رہیے ان کو کہ اصل قیمت کیا ہے۔۔۔ ایمنسٹی اسکیم کی کچھ اچھی باتیں ضرور ہیں لیکن پاکستان میں حکمراں اگر اچھے کام صرف عوام کی فلاح کے لیے کرنے لگیں تو خواہ مخواہ شک ہونے لگتا ہے ۔ جس طرح انسداد پولیو کے قطرے پلانے کے لیے پورے پاکستان کی مرکزی صوبائی ، ضلعی حکومتوں اور تمام اداروں کی بے چینی اور فرض شناسی ہے ۔ چڑیا گھر میں تفریح کے لیے جانے والے بچوں کو بھی قطرے پلائے جانے لگے ہیں ، اسکولوں میں تو پہلے ہی یہ سلسلہ تھا ۔۔۔ اس سنجیدگی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کوئی گڑ بڑ ہے ۔۔۔ اور گڑ بڑ ہے ۔۔۔ لیکن کسی میں ہمت نہیں کہ اس گڑ بڑ کو سامنے لائے۔۔۔ اسی طرح یہ ایمنسٹی اسکیم بھی بظاہر ملک کے عوام اور تنخواہ دار طبقے کو سہولت دینے کے لیے ہے۔۔۔ لیکن یہ اب واضح ہو رہا ہے کہ ساری جدو جہد میاں نواز شریف کے لیے ہے ۔ یہ پاکستانی قوم کی بد قسمتی ہے ۔ جنرل ضیاء الحق نے 8 ویں ترمیم میں با قاعدہ اپنا نام ڈلوایا ۔ اب نام نہیں ڈالا گیا لیکن فائدہ اٹھانے کے لیے راہ ہموار کی گئی ہے ۔ اسکیم کا آرڈیننس بھی ایسے موقع پر جاری کیا گیا جب سینیٹ کا اجلاس طلب کیاجا چکا تھا ۔ ایک روز بعد سینیٹ کا اجلاس ہونا تھا ۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے لیے بھی اپریل کے پہلے عشرے کی تاریخیں طے شدہ تھیں ۔ لیکن چونکہ اسمبلی کا اجلاس بلانا بھی صدر کا اختیار اور ملتوی کرنا بھی لہٰذا ممکن ہے کہ فوری طور پر صدر مملکت اسمبلی کا اجلاس نہ بلائیں ۔ یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ حکومت کے اس اقدام کے بعد وہی ہو گا جو حکومت چاہے گی۔۔۔ بلکہ دوسرے ادارے اور قوتیں بھی اپنا کوئی حربہ استعمال کریں گی ۔ یوں ایک اور اسمبلی اپنی آئینی مدت تو پوری کرنے جا رہی ہے لیکن پوری مدت کے دوران ادارے میں ایک دوسرے کے خلاف حملے کرتے نظرآئے ۔ کسی نے لانگ مارچ ، کسی نے دھرنے ،کسی نے حملے کروائے ۔ عدالتوں کے ذریعے نا اہل ہونے پر قانون میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کو استعمال کیا گیا ۔ عمران خان کے دھرنوں کے دوران اسملی ، وزراء اور کابینہ عمران خان کے خلاف محاذ بنانے میں مصروف رہے ۔جن ارکان پارلیمنٹ میں کچھ صلاحیت تھی یا وہ کچھ کر سکتے تھے انہوں نے بھی اپنا سارا وقت ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی میں گزرا ۔ اگلے چند دن بھی بالاخر گزر ہی جائیں گے لیکن عوام کو اب ووٹ ڈالنے کا جو موقع ملے تو وہ اپنا وقت اور سرمایہ ضائع کرنے والوں کو مسترد کر دیں اور ان لوگوں کو منتخب کریں جو تعداد میں کم اور حکومت میں نہ ہونے کے باوجود عوام کو ریلیف دلوا رہے ہیں۔