پہلا منظر:
ایوان وزیراعظم کے پر تکلف ڈرائنگ روم میں وزیراعظم اپنے چند قریبی رفقاء کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ درپیش ہے۔
سینئر ساتھی: ’’سر! پہلے وزیردفاع کے بارے میں طے کرلیتے ہیں‘‘۔
وزیراعظم: ’’وزیردفاع کے لیے شمشاد بہتر ہے‘‘
سینئر ساتھی: ’’سوچ لیجیے بہت اہم وزارت ہے‘‘
وزیراعظم: ’’شمشاد میں جو چیز فی الفور آدمی کو جکڑ لیتی ہے وہ اس کی حب الوطنی ہے اور میں اسے غیر فعال دیکھنا چاہتا ہوں۔ ہمارے جیسے ملک میں جہاں فوج کی سپرمیسی ہے سویلین وزیردفاع سے زیادہ غیر فعال عہدہ کوئی نہیں۔ ہمارے یہاں وزیردفاع کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو مغل بادشاہوں کے محلات میں خدمات انجام دینے والے خواجہ سراؤں کی ہوتی ہے۔ خوبصورت شہزادیوں کے درمیان رہ کر بھی لاتعلق، محض عشق و ہوس کی آرزو‘‘۔
سینئر ساتھی: ’’اور جناب! شاہ صاحب کا کیا کیا جائے؟‘‘
وزیراعظم: ’’اسے وزیرخارجہ بنا دیجیے۔ پینے پلانے والا آدمی ہے۔ جو آدمی کا شوق ہو وہی روزگار بن جائے اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں۔ یہ ایسی وزارت ہے جہاں پینا پلانا فرائض منصبی میں شامل ہے۔ سفارت خانے، سفارتی تقریبات اور بیرونی دورے شراب نوشی کے مفت کلب ہیں۔‘‘
سینئر ساتھی: ’’وزیرخزانہ کے لیے؟‘‘
وزیراعظم: ’’بھئی اسے تو طے شدہ ہی سمجھیں۔‘‘
سینئر ساتھی: ’’اور جناب معیشت کے معاملات کون دیکھے گا؟‘‘
وزیراعظم: ’’اس کے لیے فیض الحسن سے بات کرلیجیے۔‘‘
سینئر ساتھی: ’’لیکن سر وہ تو اس معاملے میں بالکل کورے ہیں‘‘۔
وزیراعظم: ’’ارے بھئی ایک توتے کو بھی معیشت دان بنایا جاسکتا ہے۔ بس اسے دو لفظ طلب اور رسد سکھانے کی ضرورت ہے‘‘۔
سینئر ساتھی: ’’ٹھیک ہے سر کل ان شاء اللہ میٹنگ بلا لیتے ہیں آپ خود وزارتوں کا اعلان فرمائیے گا‘‘۔
اگلادن: وزیراعظم ہاؤس میں کابینہ کا اعلان
اعلان سے پہلے میٹنگ میں وزیراعظم کے قریبی رفقاء منفعت بخش وزارتوں کے لیے اس قدر تند و تیز ہوتے ہیں کہ وزیراعظم کے لیے سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی نہیں معمولی اور غیر اہم وزارتوں کے لیے بھی وہ دند مچتی ہے کہ اللہ کی پناہ۔ بہرحال بمشکل وزارتوں کی تقسیم کے معاملات طے ہوتے ہیں۔ وزیراعظم وزارتوں کا اعلان کرتے ہیں۔ تمام وزراء خوشی خوشی رخصت ہوجاتے ہیں وزیراعظم کمرے میں تنہا بیٹھے ہیں۔ تھوڑی دیر نہیں گزرتی کہ وہی سینئر ساتھی جو اب بہت اہم شعبہ کے وزیر ہیں۔ ہانپتے ہوئے کمرے میں داخل ہوتے ہیں ’’سر! کمال ہوگیا تعلیم کی وزارت کو تو ہم بھول ہی گئے۔ اتنی اہم وزارت جس سے قوم کا مستقبل وابستہ ہے کسی کی ترجیح نہیں۔ نہ میرے ذہن میں آئی اور نہ آپ کے اور نہ کوئی اس کا طلب گار تھا۔‘‘
وزیراعظم: ’’ارے بھئی تو اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔ میٹنگ ابھی ختم ہوئی ہے۔ وزراء ابھی کوریڈور میں ہوں گے۔ جو وزیر پہلے نظر آئے اسے وزارت تعلیم کا اضافی چارج دیدیجیے۔‘‘
تیسرا منظر:
میں نے پوری قوت سے بریک لگایا۔ دروازہ کھول کر غصہ سے نیچے اترا ’’اوئے مرنا ہے تو کہیں اور جاکر مر میری گاڑی کے آگے کیوں آرہا ہے۔‘‘ لیکن یہ کہنے کی حسرت دل ہی میں رہ گئی۔ نوجوان تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ وہ مظلوم اور ہمدردی کا مستحق نظر آرہا تھا۔ میں نے اسے ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ والی سیٹ پر بٹھایا اور گاڑی فٹ پاتھ کے ساتھ لگادی ’’تمہارے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔ کیوں مرنا چاہتے ہو؟‘‘۔ میں نے پانی کی بوتل اس کی طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا۔ اس نے ایک ہی سانس میں آدھی بوتل خالی کردی۔ بوتل واپس کرتے ہوئے اس کی نظر اخبار پر پڑی۔ اس نے بے دھیانی میں اخبار اٹھایا اور پڑھنا شروع کردیا ’’کراچی، میٹرک کے امتحانات شروع۔ سیکڑوں امتحانی مراکز میں کئی لاکھ طلبہ و طالبات شریک۔ بیش تر سینٹروں پر ممتحن اور نگران طلبہ سے رقم لے کر نقل کرانے میں ملوث۔ اخبار پڑھ کر اس نے اخبار پڑھ کر ایک طرف پھینکتے ہوئے حواس جمع کرکے غصہ سے کہا ’’میں بیروزگار ہوں حالاں کہ امتحانی کارکردگی کے حوالے سے میں ایک بہترین طالب علم ہوں۔ میٹرک 80 پرسنٹ، انٹر78 پرسنٹ، بی اے 75 پرسنٹ۔ لیکن مجھے کہیں نوکری نہیں ملتی۔ میں سی وی بھیجتا ہوں۔ مجھے انٹرویو کے لیے فوراً بلا لیا جاتا ہے لیکن ہر کمپنی اور ہر فرم میری ڈگری اٹھاکر ایک طرف رکھ دیتی ہے اور اپنا تیار کردہ ٹیسٹ فارم میرے آگے کردیتی ہے جس کے حل کرنے میں ناکام رہتا ہوں کیوں کہ میرے نمبر جعلی ہیں۔ وہ لفظ نقل کے مرہون منت تھے جو میں نے امتحان میں لکھے تھے۔ میں نے بھی ایسے ہی امتحانی سینٹروں میں نقل کی تھی جہاں ممتحن پچاس سو، دوسو روپے جیسی حقیر رقم کے عوض طالب علموں کو نقل کراتے ہیں۔ آج میں ڈگری ہاتھ میں لیے چیخ رہا ہوں۔ میں یہاں ہوں۔ میں یہاں ہوں۔ لیکن میں کسی کی اہلیت کی شرائط پر پورا نہیں اترتا۔ ہرسال اس امتحانی نظام میں لاکھوں طالب علموں کو ٹھکانے لگادیا جاتا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں حکومت کہاں ہے۔‘‘
میں اسے کیا بتاتا کہ تعلیم کسی وزیراعظم اور اس کی کابینہ کے وزیر کی ترجیح نہیں۔ ہمارا تعلیم کا بجٹ انتہائی کم ہے ایسے میں معیاری تعلیم کیسے ممکن ہے۔ تعلیم کے بعد حصول روزگار میں ناکامی نوجوانوں کو نگل رہی ہے۔ وہ آوارہ گردی کرتے ہیں۔ منشیات کے عادی ہوجاتے ہیں یا پھر چوری چکاری ڈاکا زنی لوٹ مار اور چھینا جھپٹی میں لگ جاتے ہیں۔ نوجوان نے اضطراب سے پوچھا: ’’سر! اس قتل عام کو روکنے کا کیا طریقہ ہے؟‘‘
اس قتل عام کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے جب تک ہم اپنا تعلیمی نظام صحیح خطوط پر استوار نہیں کرلیتے اور امتحانی نظام درست نہیں کرلیتے۔ تمام اسکول اور کالج بند کردینے چاہئیں۔