پرانی عمارات اور تعمیرات پر نئے ناموں کی تختیاں لگانے پر پرانی شراب کو نئی بوتل میں پیش کرنے کا گمان ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کی نمایاں مثالیں بعض شہروں، شاہراہوں، چوکوں، جامعات، اسکولوں، کالجوں، لائبریریوں، گلی کوچوں، پلوں، پارکوں اور باغوں کے پرانے ناموں کو تبدیل کر کے نئے ناموں سے منسوب کیا جانا ہے۔ اس ضمن میں فیصل آباد، ساہیوال، اٹک، بے نظیر آباد، بے نظیر انٹرنیشنل ائرپورٹ، بی بی شہید بے نظیر بھٹو وومن یونیورسٹی، باچا خان چوک، غنی باغ، بشیر بلور شہید روڈ، جناح پارک، باچا خان انٹرنیشنل ائرپورٹ، شہید زیڈ اے بھٹو میڈیکل یونیورسٹی اور میاں نواز شریف اسپتال کی مثالیں نمایاں ہیں۔ یہاں کم از کم سابق صدر مملکت اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ انہیں اپنی اہلیہ محترمہ اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے اگر اتنی ہی عقیدت اور محبت تھی کہ جس نے انہیں اپنے دور صدارت میں سندھ کے تاریخی شہر نواب شاہ کا نام تبدیل کر کے بے نظیر آباد رکھنے پر مجبور کردیا تھا تو کیا اس پرانے شہر کے اچھے بھلے تاریخی نام کو تبدیل کرنے کے بجائے وہ محترمہ بے نظیربھٹو کے نام سے کوئی نیا شہر آباد نہیں کر سکتے تھے جس سے جہاں ان کی محترمہ بے نظیر بھٹو سے محبت کا زیادہ بہتر اور قدرے فطری انداز میں اظہار ہوتا وہاں وہ اپنے اس کارنامے کے ذریعے اور نہیں تو کم از کم مغل حکمرانوں کے مقابلے کے دعوے کے قابل تو ہو سکتے تھے۔ کیوں کہ اگر مغل بادشاہ شاہجہان اپنی اہلیہ ارجمند بیگم کی یاد میں اور اس سے محبت کے اظہار کے لیے تاج محل تعمیر کر سکتے ہیں اور جلال الدین اکبر اعظم اپنی فتح کی خوشی میں دہلی کے تاریخی شہر کو چھوڑ کر فتح پور کے نام سے ایک نئے دارالحکومت کی بنیاد رکھ سکتے ہیں تو کیا آصف علی زرداری جن کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے کیا وہ اپنی اہلیہ بے نظیر بھٹو کی یاد میں کوئی نیا شہر نہیں بسا سکتے تھے۔ اگر آصف علی زرداری میں خود بے نظیر بھٹو کے نام سے کوئی نیا شہر بسانے کی ہمت نہیں تھی تو ان کے ایک اشارہ آبرو پر ان کے دست راست پراپرٹی ٹائیکون جنہیں راتوں رات شہر بسانے اور آباد کرنے کی بین الاقوامی شہرت حاصل ہے وہ محترمہ بے نظیربھٹو کے نام پر پاکستان تو کیا کہیں بھی چٹکی بجانے میں کوئی نیا شہر بسا سکتے تھے بلکہ اب بھی اگر زرداری صاحب انہیں حکم د یں تو ان کے لیے اپنی کسی بھی ہاؤسنگ اسکیم کو بے نظیر بھٹو کے نام سے منسوب کرنا یقیناًکوئی مشکل امر نہیں ہوگا بلکہ شاید وہ اسے اپنے لیے سعادت سمجھیں گے۔
خیبر پختون خوا کی بعض سیاسی جماعتیں صوبے کی بعض پرانی سرکاری املاک جن میں جامعات، پل، سڑکیں، چوک اور حتیٰ کہ ائرپورٹ تک شامل ہیں کے نام تبدیل کر کے ان اداروں کے نام اپنی جماعتوں کے راہنماؤں کے نام پر رکھ کرسمجھتے ہیں کہ اس طرح انہوں نے اپنے قائدین کا حق ادا کر دیا ہے حالاں کہ یہ حق اگر انہیں ادا کرنا ہی تھا تو اس مقصد کے لیے پہلے سے موجود اداروں کو اپنے راہنماؤں کے نام سے منسوب کرنے کے بجائے ان کے ناموں سے نئے ادارے تعمیرکرنا چاہیے تھے۔ اسی ذہنیت کے ہاتھوں مجبور ہوکرشیر پاؤ اسپتال کا نام سرکاری کاغذات میں کئی بار تبدیل کیا گیا لیکن عوامی سطح پر لوگ اسے آج بھی خیبر تدریسی اسپتال کے بجائے شیر پاؤ اسپتال کے نام ہی سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔
سرکاری اداروں کو پارٹی راہنماؤں کے نام سے منسوب کرنے کا یہ غیرمنطقی اور منفی سلسلہ ویسے تو ہمیں ورثے میں ملا ہے اور ہمارے ہاں یہ سلسلہ بہت پہلے سے چلا آ رہا ہے لیکن اس حوالے سے جو غیر ضروری پھرتیاں ہمیں اے این پی اور پیپلزپارٹی کی گزشتہ مخلوط حکومت میں دیکھنے کو ملیں اس کی مثال شاید ہی ماضی کی کسی دوسری حکومت میں مل سکے گی۔ موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت اس حوالے سے لائق تحسین ہے کہ اس نے اے این پی اور پیپلزپارٹی کی اس روایت کو نہ صرف توڑ دیا ہے بلکہ اس سلسلے پر عملاً پابندی بھی لگا دی ہے جو یقیناًایک مستحسن اقدام ہے۔ سرکاری اداروں اور پبلک پراپرٹیز کو قومی مشاہیر اور قومی راہنماؤں کے ناموں سے منسوب کرنا نہ تو غیرمناسب ہے اور نہ ہی اس میں کوئی برائی نظر آتی ہے کیوں کہ اپنے مشاہیر اور قومی راہنماؤں کو مختلف طریقوں سے یاد درکھنا نہ صرف زندہ قوموں کی نشانی ہے بلکہ یہ ان قومی ہیروز کا ہم پر حق ہونے کے ساتھ ساتھ قوم پر ان کا قرض بھی ہے۔ قومی مشاہیر کے کارناموں کو نصابی کتابوں میں بیان کرنے کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو اپنے آباء واجداد کے کارناموں سے باخبر رکھنے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک مروجہ طریقہ یہ بھی ہے کہ ان کے ناموں سے قومی املاک اور اداروں کو منسوب کیا جائے، یہ طریقہ کار نہ صرف ترقی پزیر ممالک میں رائج ہے بلکہ امریکا اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا البتہ وہاں کے سیاسی راہنماؤں پر نہ تو پرانے قومی اداروں کو پارٹی راہنماؤں کے ناموں سے منسوب کرنے کا خبط سوار ہے اور نہ ہی نئی سرکاری املاک پر سیاست چمکاتے ہوئے ان کو پارٹی راہنماؤں کے ناموں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس معاملے کو اگر سنجیدگی اور قومی احساس اور جذبے سے لیا جائے تو اس کا ایک قابل عمل حل جہاں قانون سازی ہو سکتا ہے وہاں اس مقصد کے لیے اچھی شہرت کے حامل غیر جانبدار تجربہ کار شخصیات پر مشتمل ایک کمیٹی کو بھی یہ کام سپرد کیا جا سکتا ہے جس سے کم از کم ایک ہی صوبے میں پہلے سے قائم دو جامعات کو ایک ہی شخصیت کے نام سے منسوب کرنے کے سلسلے کی روک تھام ہوسکے گی۔