شکست کا اعتراف یا دباؤ

205

ملک تیزی سے عام انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس حوالے سے جوڑ توڑ پارٹی بدل مہم لوٹا کریسی وغیرہ شروع ہو گئی ہے ۔ لیکن معزول نا اہل وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنی پارٹی کے دس ارکان کے پارٹی چھوڑنے پر برہم ہو کر یہ کہہ دیا کہ یہ لوگ لیگی تھے ہی نہیں ۔ لیکن انہوں نے جوبات کہی ہے وہ بڑی خطرناک ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک غیر شفاف الیکشن کی طرف جا رہا ہے ، نتائج کوئی تسلیم نہیں کرے گا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے انتخابات سے قبل شکست تسلیم کر لی ہے یا پھر بیان دینے کا مطلب یہ ہے کہ اگر نتائج ہماری خواہش کے خلاف آئے تو ہم نتائج تسلیم نہیں کریں گے تاکہ الیکشن کمیشن اور انتخابی مشینری ابھی سے دباؤ میں رہے ۔۔۔ اگر نتائج مرضی کے نکلے تو ٹھیک ورنہ نا منظور تحریک ،یعنی پاکستانی قوم کو سنجیدہ سیاستدان اور حکمران ملنے کا امکان نہیں ۔ کیونکہ ایک بار پھر دھرنے ، احتجاج ، جلسے جلوس کے خدشات سامنے آ رہے ہیں ۔قوم کی جان ان ڈرامے بازیوں سے کب چھوٹے گی ۔ مسلم لیگ اقتدار میں آئی تو پی ٹی آئی دھرنے دینے نکل کھڑی ہوئی ۔ اب پھر ن لیگ کی جانب سے اس قسم کی بات کی گئی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی وقت اس ن لیگ کے ٹکڑے ہو جائیں اور وہ اس قابل ہی نہ رہے کہ نا منظور تحریک چلائی جائے۔۔۔ لیکن پھر یہ کام کوئی اور کرے گا۔