جو اپنے نہیں انہیں منانے کا مشن

262

مسلم لیگ ن جس کو بلاول زرداری نے مسلم لیگ ش کا نام دیا ہے، اس وقت شدید دباؤ میں ہے۔ ارکان اسمبلی کا پارٹی چھوڑ چھوڑ کر جانا اس کہاوت کے مصداق ہے کہ جب جہاز ڈوبنے لگتا ہے تو سب سے پہلے چوہے نکل کر بھاگتے ہیں۔ گویا پارٹی چھوڑنے والے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ن لیگ ڈوبنے والی ہے۔ لیکن اس کا امکان کم ہے۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ عام انتخابات میں ن لیگ کو واضح اکثریت حاصل نہ ہو مگر اندازہ ہے کہ دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں یہ زیادہ نشستیں حاصل کرلے گی۔ اس کی وجہ ن لیگ یا میاں نواز شریف کی کارکردگی نہیں بلکہ مقابل کی دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی ’’نا کارکردگی‘‘ ہے۔ پیپلزپارٹی کے صدر نشین بلاول زرداری بڑھک تو مارتے رہتے ہیں کہ مرکز اور پنجاب سمیت چاروں صوبوں میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہوگی اور ان کے والد آصف علی زرداری کہہ رہے ہیں کہ اگلا وزیراعظم بلاول ہوگا اور شاید وہ ایک بار پھر صدر مملکت کے منصب پر سرفراز ہوں گے۔ لیکن پنجاب تو کیا سندھ میں بھی پیپلزپارٹی کی حکومت نمایاں کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہے۔ بلاول زرداری نے بدھ کو تھرپارکر میں خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ سب سے زیادہ خوشحالی اور ترقی تھر میں آئی ہے اور یہ وہی تھر ہے جہاں سے روزانہ بچوں کی اموات کی خبریں آرہی ہیں۔ ان کی ہلاکت کی بنیادی وجہ غذائی قلت اور اسپتالوں میں طبی سہولتوں کا فقدان ہے۔ شاید اسی معاملے میں تھر کا خطہ پورے ملک میں سب سے آگے ہے۔ بلاول زرداری کے مصاحبوں نے انہیں جانے تھر کا کون سا رخ دکھایا ہے اور یہ تقریر انہیں کس نے لکھ کر دی ہے لیکن تھر ہی کیا پورا سندھ گڈ گورننس کا شاہکار ہے۔ کراچی جیسا بین الاقوامی شہر کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے جس کے بارے میں چیف جسٹس پاکستان سخت تبصرہ کرچکے ہیں اور گزشتہ منگل کو بھی انہوں نے بلوچستان کا موازنہ سندھ سے کیا ہے کہ اس کی حالت تو سندھ سے بھی بد ہے۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی کوئی کارکردگی نظر نہیں آرہی البتہ تحریک انصاف آگے بڑھی ہے لیکن اب بھی وہ ن لیگ سے پیچھے ہے جس کا ثبوت حالیہ ضمنی انتخابات ہیں ن لیگ کو ایک بڑا دھچکا اپنے 10 قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان کی بغاوت سے پہنچا ہے لیکن اس پر میاں نواز شریف اور ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگ زیب کا رد عمل مضحکہ خیز ہے۔ میاں نواز شریف نے فرمایا کہ جانے والے تو کبھی ہمارے تھے ہی نہیں، یہ تو سیاسی بنجارے ہیں، انہیں معلوم ہوگیا کہ آئندہ انہیں ٹکٹ نہیں ملے گا تو وہ چھوڑ کر چلے گئے۔ نواز شریف نے یہ بھی کہاکہ ان لوگوں پر اچانک کچھ وارد ہوا ہے۔ ان کا یہ اشارہ واضح ہے کہ کس نے ان پر کیا وارد کیا لیکن دوسری طرف ن لیگ کے نئے صدر اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف روٹھے ہوؤں کو منانے کے لیے خود جنوبی پنجاب پہنچ گئے۔ اگر یہ بقول نواز شریف، کبھی ساتھ تھے ہی نہیں اور یہ لوگ منظر سے ہٹ جائیں گے تو انہیں منانے کی کیا ضرورت ہے۔ ممکن ہے کہ میاں شہباز شریف مزید توڑ پھوڑ کو روکنے کے لیے جنوبی پنجاب گئے ہوں کیونکہ جنوبی پنجاب کے نعرے پر جمع ہونے والوں نے دعویٰ کیا ہے کہ جلد ہی بہت سے مزید افراد ان سے آملیں گے۔ ان کو روکنے کے لیے حکومت کے پاس وسائل کی کمی تو ہے نہیں۔ شہباز شریف نے بطور پارٹی صدر یہ ہدایت بھی کی تھی کہ جانے والوں کے خلاف بیانات نہ دیے جائیں لیکن کسی نے کان نہیں دھرے اور پارٹی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے جس کے جو منہ میں آرہا ہے کہہ رہا ہے۔ رانا ثنا اﷲ ہوں یا طلال چودھری، سب اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں۔ ایک پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں جانے والوں کے بارے میں رانا ثنا اﷲ نے جو کہا وہ بالکل صحیح ہے لیکن انہیں شاید یاد نہیں رہا کہ پہلے وہ خود بھی پیپلزپارٹی میں تھے جہاں سے انہیں فارغ کیا گیا۔ ان کے ممدوح میاں نواز شریف نے بھی ائر مارشل اصغر خان کی پارٹی سے اپنی سیاست کا آغاز کیا تھا جب انہیں یقین ہوگیا کہ اس پارٹی میں رہ کر انہیں کوئی اہم مقام نہیں ملنے والا تو پارٹی چھوڑ گئے۔ یہ بات صحیح ہے کہ ان 10 ارکان اسمبلی کو اچانک جنوبی پنجاب کا درد کیوں اٹھ گیا۔ تقریباً 5 سال تک تو وہ اسمبلیوں سے بھرپور فوائد حاصل کرتے رہے اور اس عرصے میں جنوبی پنجاب کی محرومیوں کو بھلائے رکھا۔ اس سے میاں نواز شریف کی اس بات میں جان تو ہے کہ ان پر اچانک کچھ وارد ہوا ہے۔ اس سے پہلے مخدوم جاوید ہاشمی نے جنوبی پنجاب کے علیحدہ صوبے کی بات کی تھی تو موجودہ وزیر مملکت عابد شیر علی نے ایسی بات کرنے والوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی تھی۔ ممکن ہے وہ اپنی دھمکی پر عمل کرنے کے لیے ملتان جارہے ہوں۔ انتخابات سے پہلے سیاسی بنجاروں کی آمد و رفت بڑھ جاتی ہے اور وہ جہاں فائدہ دیکھتے ہیں اپنا سامان اٹھاکر سرسبز چراہ گاہوں کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ ایسے میں کچھ ایجنسیاں بھی اپنا ’’فرض منصبی‘‘ ادا کرنے سے نہیں چوکتیں۔