پہلا منظر:31مارچ، غزہ، لاکھوں فلسطینیوں کا اسرائیلی سرحد کی جانب احتجاجی مارچ، اسرائیلی فوج کی فائرنگ، ڈرون طیاروں کا استعمال، توپ خانے سے بھی گولے داغے گئے۔ اسرائیلی فورسز کا غزہ میں حماس کے ٹھکانوں پر ٹینکوں سے گولہ باری اور فضائی حملے۔ صہیونی فوج نے مظاہرین پر براہ راست فائر کھول دیا۔ 15شہید، ڈیڑھ ہزار سے زاید زخمی، شہادتوں میں اضافے کا خدشہ۔
دوسرامنظر: دو اپریل، مقبوضہ کشمیر، ضلع شوپیاں، ضلع اسلام آباد (اننت ناگ)، بھارتی فوج نے سرچ آپریشن کے نام پر 17کشمیری شہید اور 100سے زاید زخمی کر دیے۔ کئی کی حالت نازک۔ مقبوضہ کشمیر میں وحشیانہ فوجی آپریشن۔ براہ راست فائرنگ کے علاوہ پیلٹ گنوں اور آنسو گیس کا اندھا دھند اور آزادانہ استعمال۔ مظاہرین اور جنازوں پر بھی فائرنگ۔ پیلٹ گنوں کے چھرے لگنے سے نوجوانوں کی آنکھیں زخمی۔ انٹر نیٹ اور ریل سروس بند۔ حریت رہنماؤں کی مذمت۔ قتل عام کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں دو روزہ ہڑتال کا اعلان۔ مقبوضہ وادی میں لوگ پا بندیوں اور کرفیو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے گھروں سے باہر نکل آئے اور شہیدوں کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔
تیسرا منظر: دو اپریل، افغانستان، صوبہ قندوز، ضلع دشت اچی، علاقہ پٹھان بازار، ایک مقامی مدرسے دارالعلوم ہاشمیہ میں فضلا اور حفاظ کرام کی دستار بندی کی سالانہ تقریب۔ فارغ التحصیل طلبہ کے والدین، عزیز واقارب اور دوست احباب، ہزاروں لوگ اجتماع میں شریک۔ فضلا اور حفاظ کرام کے سروں پر دستار فضیلت سجائی گئی۔ نوجوان اور ننھے طلبہ مبارک بادیں وصول کررہے تھے کہ یکایک منظر بدل گیا۔ آسمان پر امریکی افغان طیارے نمودار ہوئے اور انہوں نے ’’دہشت گردوں‘‘ پر بمباری شروع کردی۔ 100سے زاید حفاظ بچے شہید۔
یہ محض دو دنوں کی تفصیلات ہیں۔ ان تینوں مناظر میں ایک بات مشترک ہے۔ وہ یہ کہ عالم کفر مسلمانوں کے خلاف اب ننگی جارحیت پر اتر آیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہندو، افغانستان میں قابض عیسائی اور اسرائیل کے یہودی مسلمانوں کے خلاف کھلے ظلم اور جارحیت کا ارتکاب کررہے ہیں۔ کسی شرم، خوف، ہچکچاہٹ اور عالمی دباؤ سے بے نیاز براہ راست گنوں، جہازوں، ٹینکوں، توپ خانے اور ڈرونز سے نہتے مسلمانوں پر آتش اور آہن کی بارش کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ مغرب کے اس عہد غلبہ میں سب سے سستی چیز مسلمان کا خون ہے۔ ان دو دنوں میں اور کہاں کہاں مسلمانوں کا براہ راست قتل عام کیا گیا، ہمیں نہیں معلوم۔ یہود کے زیر کنٹرول عالمی میڈیا نے اس حوالے سے کوئی خبر نشر نہیں کی۔ خود ہمارے میڈیا کا یہ حال ہے کہ ہماری سرحدوں کے پاس قندوز میں سو سے زاید حافظ بچے شہید کردیے گئے اور ہمارا مین اسٹریم میڈیا عالمی کرکٹ کے پاکستان میں لوٹ آنے کی خوشیاں منارہا تھا۔ سوشل میڈیا پر حشر بپا ہوا تب ہمارے میڈیا کو ہوش آیا۔
سوال یہ ہے کہ عالم کفر مسلمانوں کے خلاف اس کھلی چنگیزیت پر کیوں اتر آیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے ایک بات۔ آپ کو میرا کافر، کفار اور عالم کفر کہنا عجیب سا محسوس ہو رہا ہوگا کیوں کہ ان اصطلاحات کا استعمال اب متروک ہوگیا ہے۔ ان کی جگہ ’’عالمی برادری‘‘، ’’مغرب‘‘ اور ’’اہل مغرب‘‘ نے لے لی ہے۔ ہندو کو ہندو، عیسائی کو عیسائی اور یہودی کو یہودی کہنا اب شدت پسندی ہے اب یہ ’’عالمی برادری‘‘ ہے۔ البتہ مسلمان کو شدت پسند، انتہا پسند، دہشت گرد اور جہادی کہنا حقیقت پسندی ہے۔ قرآن کو سینوں میں محفوظ کرنا، اسلام کے فروغ کی کوششیں کرنا، اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھنا، خلافت راشدہ کے نظام کے احیا کی جدوجہد کرنا، دہشت گردی ہے۔ قرآن، دستار، مساجد، دینی مدارس، اسلام یہ سب دہشت گردی کی علا متیں ہیں جو امریکا اور اس کے ایجنٹ حکمرانوں کو جھنجھلا ہٹ میں مبتلا کردیتی ہیں۔
عالم کفر نے مسلمانوں کو اسلام سے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرڈالی۔ اسلام کے حکومتی نظام خلافت کی جگہ جمہوریت اور غیرت مند مسلم قیادت کی جگہ وہ اپنے ایجنٹ حکمران لے آئے۔ کھرچ کھرچ کر میڈیا سے اسلام، اسلامی تعلیمات اور اصطلاحات کو نکال کر مغربی اصطلاحات، مغربی کلچر اور نظام تعلیم مسلمانوں پر مسلط کردیا گیا۔ لیکن صدیوں پر محیط ان کوششوں کے باوجود عام مسلمان ہے کہ اس کا دل آج بھی اسلام کے لیے دھڑکتا ہے۔ وہ آج بھی خلافت راشدہ کا نظام چاہتا ہے۔ اس کے ہیروز آج بھی صحابہ کرامؓ، محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد، محمود غزنوی، شہنشاہ اورنگ زیب، ٹیپو سلطان، سراج الدولہ، شاہ ولی اللہ اور ملا عمر جیسے مجاہد ہیں۔ عام مسلمان نے بڑی خاموشی سے مغرب کی ایک ایک چال کو ناکام بنادیا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں کسی بھی مسلمان سے پوچھ لیں کہ تم جہاد کرنا چاہتے ہو، مجاہد بننا چاہتے ہو اس کا جواب ہاں میں ہوگا۔ فکری یلغار میں ناکامی سے مغرب اب تھک گیا ہے۔ اس کو ادراک ہوگیا ہے کہ ان کی تہذیب اسلامی تہذیب سے برتر نہیں ہے۔ کمیونزم کا مقابلہ مسلمانوں نے مغرب سے بڑھ کر کیا ہے۔ وہ یہ جان چکے ہیں کہ مسلمان ان کے قابو میں آنے والے نہیں۔ اس لیے اب وہ براہ راست مسلمانوں کے قتل عام پر اتر آئے ہیں۔ اسرائیل کے قسائی ایریل شیرون نے 1956میں فلسطینیوں کے متعلق جو کچھ کہا تھا آج دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف کفر کی طاقتیں اس پر عمل پیرا ہیں۔ ایریل شیرون نے ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’’میں نے اس خطے میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو جو فلسطینی ہوجلاکر راکھ کردینے کا عہد کیا ہے۔ یہ بچے اور عورتیں ہمارے لیے زیادہ خطرہ ہیں کیوں کہ ان کا باقی رہنا یہ مطلب رکھتا ہے کہ ہم آئندہ فلسطینی نسلوں کا تسلسل جاری رہنے دیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے فوجیوں کو فلسطینی خواتین کی عزت لوٹنے پر ابھاروں کیوں کہ وہ سب اسرائیل کے غلام ہیں۔ وہ ہم پر اپنی رائے اور ارادہ مسلط نہیں کرسکتے۔ حکم جاری کرنے کا حق صرف ہمیں حاصل ہے باقی سب کو ہماری اطاعت کرنا ہے۔‘‘
اس شیرونیت پر عمل پیرا ہونے کا اثر ہے کہ شام، فلسطین، عراق، میانمر، کشمیر اور افغانستان میں آج مسلمان نوجوانوں، بچوں اور عورتوں کو چن چن کر شہید کیا جارہا ہے۔ لیکن اس چنگیزیت اور ظلم وجور کے نتیجے میں کیا اسلام مسلمانوں کے دل سے نکل جائے گا؟ کیا مسلمان اسلام سے دستبردار ہوجائیں گے؟ کیا مسلمان جہاد ترک کردیں گے؟ قندوز میں وہ بچے جن کی آنکھوں میں قرآن کی چمک تھی، جن کے لبوں پر قرآن کی حلاوت تھی، ان کی شہادت کے خوف سے مسلمان اب قرآن سینوں میں محفوظ کرنا بند کردیں گے؟ لب قرآن کو بوسہ دینا ترک کردیں گے؟۔ نہیں ربّ کعبہ کی قسم ایسا نہیں ہوسکتا۔ چودہ صدیوں کے تاریک اور روشن زمانوں کی قسم ایسا ممکن نہیں، ممکن نہیں، ممکن نہیں۔
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جا ملے
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے