شام۔روس ، امریکا جنگ کا نیا میدان

535

مسلم ملک شام برسوں سے خانہ جنگی اور بیرونی حملوں کا شکار ہو کر تباہ و برباد ہو گیا ہے ۔ شامی صدر بشار الاسد خود اپنے عوام سے بر سر پیکار ہے اور ایرانی فوجیں بھی بشار کی حمایت میں لڑ رہی ہیں ۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ خطرناک صورتحال یہ ہے کہ روس اور امریکا دونوں نے شام کو میدان جنگ بنایا ہوا ہے ۔ کبھی ایک مارتا ہے اور کبھی دوسرا ۔ گزشتہ دنوں شامی حکومت نے اپنے شہریوں پر کیمیائی اسلحہ استعمال کیا جس سے عورتوں ، بچوں سمیت سینکڑوں شامیوں نے سسک سسک کر دم توڑ دیا ۔ اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کو دھمکی دی ہے کہ وہ شام میں میزائل حملوں کے لیے تیار رہے ۔ ٹرمپ نے اپنے پیغام میں کہا کہ امریکا کے نئے میزائل آ رہے ہیں جو پہلے سے مزید بہتر ہیں ۔ اس کے جواب میں روس نے کہا کہ وہ شام کی طرف آنے والے تمام میزائلوں کو مار گرائے گا ، امریکا دھمکیوں سے بازر ہے ، روس پوری طرح تیار ہے ۔ ایک ضرب المثل ہے کہ بیلوں کی لڑائی میں کھلیان کا نقصان ۔ روس اور امریکا دونوں نے اپنی لڑائی کے لیے اس بار شام کا انتخاب کیا ہے ۔ دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریاں دیکھ کر جنگجو اقوام نے طے کر لیا تھا کہ آئندہ جنگیں اپنے اپنے ملک سے باہر اور ایشیائی ممالک میں ہوں گی ۔ کیونکہ جنگوں میں اپنا انفرا اسٹرکچر ، عمارتیں ، وسائل اور زمینیں تباہ ہوتی ہیں ۔جس زمین پر بمباری ہو وہ ایک عرصے تک کچھ بھی اُگانے کے قابل نہیں رہتی ۔ اس غیر تحریر سمجھوتے پر عمل کے نتیجے میں ہی سوویت یونین اور امریکا نے افغانستان کا انتخاب کیا ۔ اب یہ جنگ شام میں لڑی جا رہی ہے ۔ امریکا شام پر اپنے نئے اور جدید میزائلوں کا تجربہ کرے یا روس ان میزائلوں کو مار گرائے ،دونوں صورتوں میں نقصان شام اور شامیوں کا ہو گا ۔ شام مزید تباہ ہو گا اور مزید شامی مارے جائیں گے ۔ سعودی عرب اور برطانیہ نے بھی امریکی حملوں کی حمایت کی ہے ۔ سعودی عرب کو کبھی مسلمانوں کی قیادت کا شرف حاصل تھا لیکن ایک طرف تو وہ خود پڑوسی ممالک سے نبرد آزما ہے دوسری طرف وہ ایران کو نیچا دکھانا چاہتا ہے جو شامی صدر کے نصیری ہونے کی وجہ سے اس کا ساتھ دے رہا ہے اور یہ جنگ شیعہ سنی محاذ آرائی کا رُخ اختیار کر رہی ہے ۔ بڑی طاقتیں دونوں کو اسلحہ فراہم کر رہی ہیں کہ جم کر آپس میں لڑو ، مسلمان مسلمان کو ماریں اور مسلم دشمن طاقتیں دور کھڑی بغلیں بجائیں۔ سنی مارے جائیں یا شیعہ ، نقصان صرف مسلمانوں کا ہے ۔ سعودی عرب اور ایران دونوں کو اپنی مخاصمت بھلا کر شام کے مسلمانوں کی مدد کرنی چاہیے ورنہ یہ جنگ پھیلتی جائے گی ۔ دونوں کواس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے کہ مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن اسرائیل بھی ملوث ہو گیا ہے چنانچہ روسی صدر پیوٹن نے گزشتہ بدھ کو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو فون کر کے متنبہ کیا ہے کہ شامی تنازع سے دور رہو اور ایسی کارروائی نہ کی جائے جس سے شام کی صورتحال مزید عدم استحکام کا شکار ہو ۔ یہ انتباہ اس لیے کیا گیا کہ ایک دن پہلے ہی اسرائیل نے بھی شامی فوجی اڈے پر فضائی حملہ کیا تھا ۔ سعودی عرب نہ سہی ایران کو تو سمجھنا چاہیے کہ جس معاملے میں صہیونی ملوث ہوجائیں وہ لازمی طور پر امت مسلمہ کے خلاف ہو گا ۔ امریکی صدر ٹرمپ نے شام پر میزائل حملوں کی دھمکی دیتے ہوئے بڑا عجیب جملہ کہا ہے کہ ’’روس کو ایسے لوگوں کا ساتھ نہیں دینا چاہیے جو جانوروں کی طرح اپنے لوگوں کو قتل کرتے ہیں‘‘۔ ٹرمپ کے کہنے کا مطلب واضح ہے کہ اپنے لوگوں کو قتل کرنے والے تو جانور ہوتے ہیں اس لیے دوسروں کو قتل کیا جائے جیسے امریکا نے افغانستان ، عراق اور لیبیا وغیرہ میں کیا اور اب شام کو مقتل بنا رکھا ہے ۔ سوال بہت پرانا ہے لیکن اب بھی جواب کا طالب ہے کہ مسلم ممالک کیا کر رہے ہیں ، نام نہاد او آئی سی اورد یگر تنظیمیں کہاں سوئی پڑی ہیں ۔ ان کی اپنی انجمن اقوام متحدہ کیوں نہیں ہے ۔ معاملہ یو این او میں جاتا ہے تو روس یا امریکا ایک دوسرے کی قرار دادوں کو مسترد کر دیتے ہیں ۔ بڑی طاقتوں نے اجتماعی طور پر تمام مسلم ممالک کو مسترد کر رکھا ہے ۔جرم ضعیفی کی سزا تو مل کر رہے گی ۔