مسلم دنیا کئی اعتبار سے مغرب کے ایجنٹوں کی دنیا ہے۔ اس سلسلے میں مغرب کے ’’کمال‘‘ کا یہ عالم ہے کہ وہ صرف اپنے ’’توتے‘‘ اور ’’کتے‘‘ ہی ایجاد نہیں کرتا بلکہ برصغیر میں اس نے مرزا غلام احمد قادیانی کی صورت میں ’’جھوٹا نبی‘‘ تک ’’ایجاد‘‘ کرکے دکھا دیا۔ مغرب کراچی میں الطاف حسین کی صورت میں ایک اور جھوٹا نبی ایجاد کرنے والا تھا۔ الطاف حسین کی شبیہہ کروٹن کے پتوں اور مسجد کے فرش پر اچانک نمودار ہونے لگی تھی مگر ’’نامعلوم وجوہ‘‘ کے باعث مغرب نے ایک اور جھوٹے نبی کی ایجاد کا ’’Project‘‘ ترک کردیا اور اہل کراچی ایک بہت بڑی روحانی آزمائش سے بچ گئے۔ مغرب اپنے ایجنٹ کیسے ’’ایجاد‘‘ کرتا ہے اس کی تازہ ترین مثال ملالہ یوسف زئی ہیں۔ ملالہ زیرو نہیں ایک بہت ہی بڑا زیرو تھیں مگر مغرب نے انہیں چار دن میں ’’عالمی شخصیت‘‘ بنا کر نوبل انعام سے نواز دیا۔ بیچارے عبدالستار ایدھی 40 سال تک لاکھوں لوگوں کی زندگی میں اجالا کرتے رہے۔ ادیب رضوی مدتوں سے لاکھوں لوگوں کا مفت علاج کرچکے ہیں۔ مگر ان شخصیتوں کا نام کبھی نوبل انعام کے لیے تجویز تک نہ ہوسکا۔ لیکن ملالہ نے کچھ کیے بغیر نوبل انعام حاصل کرلیا۔ اس کو کہتے ہیں ایجنٹ ایجاد کرنے کا عمل۔ لوگ کہتے ہیں کہ ملالہ نے طالبان کے جبر کے خلاف آواز اٹھائی۔ چلیے مان لیا یہ بڑی بات ہوگی مگر جنرل پرویز مشرف نے ہزاروں طالبان کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا، راحیل شریف نے آپریشن کے ذریعے ہزاروں طالبان کو موت کی نیند سلا دیا۔ اس اعتبار سے جنرل پرویز اور راحیل شریف ملالہ سے کئی لاکھ گنا اس بات کے مستحق تھے کہ انہیں نوبل انعام سے نوازا جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ ملالہ طالبان کے حملے میں زخمی ہوئیں، ضرور ہوئی ہوں گی لیکن کیا طالبان کے ہاتھوں زخم کھا کر کوئی نوبل انعام کا مستحق ہوجاتا ہے؟ ایسا ہے تو جو لوگ طالبان کی جانب سے کیے جانے والے دھماکوں میں جاں بحق ہوئے وہ ملالہ سے زیادہ نوبل انعام کے مستحق تھے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغرب نے ملالہ کو نوبل انعام دے کر نوبل انعام کو مذاق بنادیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو نوبل انعام کو بڑی چیز سمجھتے تھے مگر جب سے ملالہ کو نوبل انعام ملا ہے ہمیں پاکستان کا ’’لکس ایوارڈ‘‘ نوبل انعام سے زیادہ بڑا نظر آنے لگا ہے۔ غور کیا جائے تو یہ کوئی طنزیہ تبصرہ نہیں۔ لکس ایوارڈ اداکاروں اور گلوکاروں کو دیا جاتا ہے مگر ملالہ اداکارہ اور گلوکارہ کیا ’’ماڈل گرل‘‘ تک نہیں ہیں۔
ان حقائق کے باوجود مغرب اور اس کے مقامی آلہ کار ملالہ کو ’’عظیم‘‘ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ملالہ پانچ سال کے بعد پاکستان آئیں تو انگریزی پریس بالخصوص میر شکیل الرحمن کے جیو، دی نیوز اور جنگ میں ’’ہنگامہ‘‘ برپا ہوگیا۔ وزیراعظم خاقان عباسی ویسے تو ’’بے جان عباسی‘‘ کا کردار ادا کرتے رہتے ہیں مگر ملالہ کی پاکستان آمد پر ان میں اچانک ’’جان‘‘ پڑ گئی اور انہوں نے فرمایا ’’بیٹی گھر آئی‘‘۔ خدا کا شکر ہے پاکستان میں ابھی تک بیٹیاں گھروں میں پیدا ہوتی ہیں مغرب کے سیاسی ایوانوں یا ابلاغی اداروں میں ’’ایجاد‘‘ نہیں ہوتیں اور جو ہوتی ہیں انہیں پاکستان کی بیٹیاں تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں ہمیں یاد آیا کہ خاقان عباسی بھی ’’پاکستان کے بیٹے‘‘ ہیں۔ پاکستان کا یہ بیٹا کچھ عرصہ قبل یہ کہہ کر امریکا گیا تھا کہ میری بہن کا آپریشن ہے، مگر پھر پاکستان کا یہ بیٹا اچانک امریکا کے نائب صدر کے ساتھ ’’تنہائی‘‘ میں ملاقات کرتا نظر آیا۔ پاکستان کے ’’بیٹے بے جان عباسی‘‘ کا یہ عالم ہے تو پاکستان کی ’’بیٹی‘‘ ملالہ کا کیا ’’عالم‘‘ ہوگا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ملالہ اور شاہد خاقان عباسی باپ بیٹی سے زیادہ ایک دوسرے کے ’’بھائی بہن‘‘ نظر آئے۔
ملالہ پاکستان آئیں تو جیو نے ان کا خصوصی انٹرویو نشر کیا۔ انٹرویو میں ملالہ نے فرمایا کہ اب ان کی رائے بدل گئی ہے۔ اب وہ سیاست میں نہیں آنا چاہتیں۔ اس کے باوجود ملالہ اور ان کے والد کی شخصیتوں پر مغرب کی ’’مخصوص سیاست‘‘ کا سایہ چھپائے نہیں چھپ رہا۔ مثلاً 31 مارچ 2018ء کے روزنامہ جنگ میں ان کے انٹرویو کی جو تفصیلات شائع ہوئی ہیں انہیں نظر انداز کرنا دشوار ہے۔ مثلاً مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں انہوں نے فرمایا۔
’’ (یہ) کشمیریوں کا فیصلہ ہوگا کہ وہ آزادی چاہتے ہیں یا انڈیا کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ اس میں کسی ملک کو مداخلت نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ (روزنامہ جنگ کراچی، 31 مارچ 2018ء)
برصغیر کی تقسیم اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے تحت کشمیر کے لوگوں کو حق خودارادیت دیا جانا ہے اور اہل کشمیر کو صرف دو ’’Options‘‘ مہیا ہوں گے۔ ایک یہ کہ وہ پاکستان میں شامل ہوجائیں، دوسرا یہ کہ وہ بھارت ہی کا حصہ بننے رہیں۔ مگر ملالہ یوسف زئی نے کشمیر کے سلسلے میں جو کچھ کہا ہے اس میں بدنام زمانہ ’’Third Option‘‘ بھی موجود ہے۔ یعنی کشمیری چاہیں تو وہ ’’آزاد‘‘ بھی ہوسکتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ملالہ نے اپنے جواب میں Third Option کا ذکر سب سے پہلے کیا ہے۔ کشمیریوں کی بھارت میں شمولیت کو انہوں نے ’’دوسرے نمبر‘‘ پر رکھا ہے اور کشمیریوں کے پاکستان میں شامل ہونے کے Option کو انہوں نے تیسرے اور آخری درجے پر کھڑا کردیا ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ کشمیر کے سلسلے میں Third Option امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کا Option ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کشمیر آزاد ہوگیا تو وہ امریکا اور یورپ کی سیٹلائٹ اسٹیٹ ہوگا۔ یہ بھی نہیں ہوگا تو بھارت اس پر اسی طرح غالب ہوگا جیسے بھارت بنگلا دیش پر غالب ہے۔ جیسے بھارت بھوٹان، نیپال اور سری لنکا پر غالب ہے۔ یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ جیو اور جنگ کی طرح حامد میر بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ کشمیر پر Third Option مغرب کا Option ہے اور اس کا اقوام متحدہ کی قراردادوں اور تقسیم برصغیر کے فارمولے سے کوئی تعلق نہیں مگر اس کے باوجود ملالہ کشمیر پر Third Option ’’بگھار‘‘ رہی تھیں اور حامد میر کے حواس اتنے معطل تھے کہ انہوں نے Third Option کے سلسلے میں ملالہ سے کوئی سوال کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ یہ ہے ’’پاکستان کی بیٹی‘‘ کی ’’سیاست‘‘ کی ایک ’’جھلک‘‘۔ یہاں ہمیں علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آگیا
کہیں چھپائے سے چھپتی ہے بے حسی دل کی
ہزار کہتا پھرے مست ہے قلندر ہے
اس شعر کا ملالہ ہی سے نہیں ملالہ کو ’’پاکستان کی بیٹی‘‘ قرار دینے والے ’’بے جان عباسی‘‘ جیو، جنگ اور حامد میر سے بھی ایک تعلق ہے۔
ملالہ نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی فرمایا کہ برطانیہ میں تعلیمی نظام بہت اچھا ہے۔ برطانیہ میں بچوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ سوال کریں۔ ملالہ نے کہا کہ میں پاکستانی بچوں سے بھی کہوں گی کہ وہ بھی سوال کریں۔ برطانیہ کے تعلیمی نظام کے اچھا ہونے میں کیا شبہ ہے۔ سوال کرنے کی اہمیت بھی غیر معمولی ہے۔ مگر ہر تہذیب اور ہر معاشرے میں سوال کی ’’حدود‘‘ ہوتی ہیں۔ برطانیہ میں سوالات کی آزادی ہے تو ملالہ برطانیہ کے کسی بھی بڑے اخبار میں ایک مضمون شائع کردیتیں۔ اس مضمون میں درج ذیل سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ مثلاً برطانیہ نے آدھی دنیا پر غلامی کیوں مسلط کی؟ برطانیہ نے اپنی نوآبادیات بالخصوص برصغیر کے وسائل کو کیوں لوٹا؟ انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کے برصغیر پر قبضہ کرکے اس کے خلاف ’’غداری‘‘ کا مقدمہ کیوں چلایا؟ برطانیہ نے 1857 کی جنگ آزادی میں ڈیڑھ سے دو کروڑ لوگوں کو کیوں ہلاک کیا؟ برطانیہ نے قیام پاکستان کے وقت سرحدوں کے تعین میں بھارت پرستی کیوں کی؟ تقسیم برصغیر کے فارمولے کی رو سے کشمیر پاکستان کا حصہ تھا مگر انگریزوں نے اس سلسلے میں کانگریس کا ساتھ دیا۔ آخر کیوں؟ حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھے مگر بھارت نے وہاں فوج کشی کردی۔ انگریزوں نے ایسا کیوں ہونے دیا؟ امریکا اور برطانیہ نے عراق میں 16 لاکھ مسلمانوں کو مار ڈالا۔ 10 لاکھ مسلمان اقتصادی پابندیوں سے مرے اور 6 لاکھ عراق پر امریکا اور برطانیہ کی فوج کشی سے مارے گئے۔ آخر اس بھیانک جرم کو تسلیم کرکے اس کا ازالہ کیوں نہیں کرتا؟ الطاف حسین برطانیہ میں بیٹھ کر کراچی میں ہزاروں لوگوں کو قتل کراچکے ہیں۔ آخر برطانیہ کو اب تک اس کی اطلاع کیوں نہیں ہے؟ ملالہ برطانیہ میں یہ سوالات پوچھ لیں گی تو پھر وہ پاکستان میں بچوں کو یہ تلقین کرتی ہوئی اچھی لگیں گی کہ سوال کیا کرو سوال کرنا اچھی بات ہے۔
ملالہ نے حامد میر کو یہ بھی بتایا کہ پہلے میری کتاب I am Malala میں رسول اکرمؐ کے اسم گرامی محمدؐ کے ساتھ Peace be Upon him نہیں لکھا ہوا تھا مگر اب آپؐ کے اسم گرامی کے ساتھ Peace be Upon him لکھ دیا گیا ہے۔ بہت خوب۔ مگر ملالہ یہ بھی تو بتائیں کہ ایک ’’مسلمان بچی‘‘ اور ’’پاکستان کی بیٹی‘‘ کی کتاب میں لفظ محمدؐ کے ساتھ Peace be Upon him کیوں نہیں لکھا ہوا تھا؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ اب Peace be Upon him لکھ دیا گیا ہے تو ایسا مذہبی تصور کے تحت کیا گیا ہے یا ’’سیاسی جذبے‘‘ کے تحت؟
(جاری ہے)