مال خانے میں آتش زدگی

203

گزشتہ دنوں سٹی کورٹ کراچی کے مال خانے میں لگنے والی آگ کسی سازش تخریب کاری کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے ۔ یہ آگ منگل اور بدھ کی درمیانی شب میں لگی جس سے عمارت کا ایک حصہ تو منہدم ہوا ہی لیکن اصل نقصان یہ ہوا کہ ڈھائی ہزار سنگین مقدمات کے ثبوت جل کر راکھ ہو گئے ۔ کیس پراپرٹی یعنی مقدمات سے متعلق جو اشیاء مال خانے میں جمع تھیں وہ نابود ہو گئیں ۔ ان میں ملزمان سے برآمد ہونے والا اسلحہ ، بم ، بارودی مواد ، پکڑی گئی منشیات ، سونا ، چاندی ، خون آلود کپڑے ، آلہ قتل اور فائلیں وغیرہ شامل تھیں ۔ اب پولیس کے پاس گرفتار مجرموں یا ملزموں کے خلاف ٹھوس ثبوت نہیں رہے جس کا فائدہ دہشت گردوں اور دیگر مجرموں کو ہو گا ۔ کسی مقدمہ قتل میں عدالت آلۂ قتل ضرور طلب کرتی ہے ۔ خون آلود کپڑے بھی اہم شہادت ہوتے ہیں ۔ ڈی آئی جی کے مطابق کراچی کے دو اضلاع کا ریکارڈ مکمل طور پر جل گیا ۔ قانونی ماہرین کے مطابق کیس پراپرٹی کے بغیر مقدمات کمزور ہو جائیں گے اور کئی مجرم صاف چھوٹ جائیں گے ۔ ان حقائق کے پیش نظر یہ امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ آگ لگی نہیں ، لگائی گئی ہے۔ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ کیا مال خانے کی حفاظت کا معقول بندو بست نہیں کیا گیا ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہاں پر آگ بجھانے والے آلات ہوتے تاکہ آگ پر فوری طور پر قابو پایا جا سکتا ۔ اہم ترین شواہد کو ایسی جگہ رکھا جاتا جہاں آگ اثر نہ کرتی ۔ یعنی فائر پروف کمرے ہوتے ۔ اب اس سانحے کے بعد شاید کسی کو ہوش آئے ۔ جس نے مال خانہ دیکھا ہے وہ جانتا ہے کہ وہاں انتہائی بے ترتیبی اور افرا تفری کا عالم ہوتا ہے ۔ کئی اہم ثبوت بکھرے پڑے ہوتے ہیں ۔ ڈھائی ہزار سنگین مقدمات کے ثبوت جل جانے سے کتنے ہی اہم ملزم چھوٹ جائیں گے جو پھر شہر میں اپنی حرکتیں شروع کر دیں گے ۔ آگ لگنے کی اس وار دات کی بھر پور تحقیق ہونی چاہیے ۔