اٹھارھویں آئینی ترمیم 

548

اٹھارویں ترمیم کرتے وقت قوم کو یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اس تاریخی ترمیم جسے اگر پاکستان کی آئینی تاریخ کے تناظر میں 1973کے آئین کے بعد وفاق اور صوبوں سمیت تمام قومی، علاقائی، لسانی اور مذہبی جماعتوں کے اتفاق رائے پر مشتمل دوسری اہم ترین قومی دستاویز کہا جائے توبے جا نہیں ہوگا، جہاں وفاق اور صوبوں کے درمیان بعض آئینی پیچیدگیوں کے خاتمے میں مدد ملے گی وہاں اس سے وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل اور اختیارات کی تقسیم، بعض انتظامی معاملات اور بہت سارے مبہم امور طے پانے کے نتیجے میں وہ بہت ساری غلط فہمیاں بھی ختم یا بہت حد تک کم ہو جائیں گی جن کی وجہ سے وفاق اور صوبوں کے درمیان ہر وقت نہ صرف وسائل کی بندر بانٹ پر غیر ضروری محاذ آرائی کا بازار گرم رہتا تھا بلکہ اس کھینچا تانی کا تمام تر نقصان پاکستان کے عام شہریوں کو مختلف صورتوں اور مسائل کی صورت میں برداشت کرنا پڑتا تھا۔
اٹھارویں ترمیم پر بحث کے دوران اس کے حق میں یہاں تک کہا گیا کہ اگر سانحہ مشرقی پاکستان سے قبل اٹھارویں ترمیم کی طرح کی کوئی آئینی ضمانت مشرقی پاکستان کی اس وقت کی قیادت کو دے دی جاتی تو شاید پوری قوم کو سقوط ڈھاکا کا جانکاہ سانحہ نہ سہنا پڑتا۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد کم از کم اس بات پر تقریباً سب صوبوں کا اتفاق ہوچکا ہے کہ وفاق کا کام دفاع، خارجہ امور، کرنسی، بین الصوبائی مواصلات مثلاً ریلوے، شہری ہوابازی، بندرگاہیں، پانی وبجلی اور دفاعی پیداوار جیسے بڑے سیکٹرز کی نگرانی اور انتظام اور منصوبہ بندی وغیرہ کرنا ہے جبکہ صحت، تعلیم، بلدیات، امن وامان، روزگار، سماجی بہبود، مفاد عامہ، سیاحت، زراعت، جنگلات اور معدنیات کے شعبے صوبائی حکومتوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔
اٹھارویں ترمیم کے تحت بعض محکموں خاص کر دو بنیادی اہمیت کے حامل شعبوں تعلیم اور صحت کو صوبائی حکومتوں کو منتقل کرنے کے پیچھے یہ واضح سوچ کارفرما تھی کہ چوں کہ ان دونوں شعبوں کا براہ راست تعلق عوامی فلاح وبہبود سے ہے اور ان خدمات کی چوں کہ وفاق سے ادائیگی میں کئی پیچیدگیاں اور مشکلات تھیں اس لیے اٹھارویں ترمیم کے تحت ان دونوں شعبوں کو صوبائی حکومتوں کے دائرہ کار میں دینے کا فیصلہ اس نقطہ نظر کی بنیاد پر کیا گیا تھا کہ اس طرح اختیارات اور وسائل کی نچلی سطح پر منتقلی سے عام لوگوں کو بہتر خدمات کی دستیابی کی صورت میں فائدہ ہوگا لیکن آج جب ہم ان دونوں شعبوں سمیت اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو منتقل ہونے والے تمام دیگر محکموں کی کارکردگی اور اختیارات کے استعمال کی صلاحیتوں اور معیار کو دیکھتے ہیں تو ہمارے ہاتھ سوائے مایوسی کے اور کچھ نہیں آتا اور شاید اٹھارویں ترمیم پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہ ہونے کاہی نتیجہ ہے کہ محض دس سال کے اندر اندر نہ صرف اس اہم آئینی ترمیم کے خلاف مختلف حلقوں کی جانب سے آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں بلکہ بعض قوتیں اس ترمیم پر عمل درآمد نہ ہونے کو بنیاد اور جواز بناتے ہوئے اس کے خاتمے کے درپے بھی نظر آتی ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے اس کی مخالفت کے لیے یہ جواز گھڑ رہے ہیں کہ صوبے اس آئینی ترمیم کا وہ فائدہ نہیں اٹھا سکے جس مقصد کے لیے یہ ترمیم کی گئی تھی۔ حیرت ہے کہ اس ترمیم کی خالق جماعت جو چاروں صوبوں کی زنجیر ہونے کا دعویٰ بھی رکھتی ہے کی جانب سے اب تک اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کی مخالفت کے حوالے سے کوئی واضح اور دوٹوک موقف سامنے نہیں آیا البتہ اس ترمیم کی سب سے بڑی حامی اور وکیل جماعت جو اپنے پانچ سالہ عرصہ اقتدار میں کسی حدتک حقیقی معنوں میں اس ترمیم کے فیوض اور برکات سے مستفید ہو چکی ہے کی جانب سے اس ترمیم کے خاتمے کی نہ صرف مزاحمت کا دوٹوک موقف سامنے آ چکا ہے بلکہ اس کے سربراہ جو ہمیشہ بڑے بول بولنے جسے عام سیاسی اصطلاح میں بڑھک بھی کہا جاتا ہے کے لیے شہرت رکھتے ہیں کی طرف سے یہ انتباہ بھی سامنے آ چکا ہے کہ اگر کسی نے بھی آٹھارویں ترمیم کوچھیڑنے کی کوشش کی تو اس کے نتیجے میں وفاق کا برقرار رہنا ناممکن ہو جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ پہلے تو یہ بتا دیا جائے کہ اٹھارویں ترمیم کے خلاف یہ سازش آخر کر کون رہا ہے ثانیاً اگر کسی بھی سطح پر واقعی ایسی کوئی کھچڑی پک رہی ہے تو تمام جماعتوں کو ان خفیہ ہاتھوں کو بے نقاب کرنا چاہیے جو قومی یکجہتی کی حامل اس اہم آئینی ترمیم کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ کیا یہ ہاتھ اتنے مضبوط ہیں کہ یہ آئین میں من مانی ترامیم کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں مقدس ایوانوں کو بھی ایک ساتھ یرغمال بنانے پر قدرت رکھتے ہیں۔ ہمارے خیال میں بلوچستان کی ایک نسبتاً چھوٹی اور کمزور صوبائی اسمبلی میں نقب لگانے اور پوری پارلیمنٹ کو اپنے انگوٹھے کے نیچے دبانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہاں حکومت اکثریت کی بنیاد پر اگر ایسا کوئی ارادہ رکھتی ہے تو اس کے لیے ا تنی آسانی سے اس نازک موقعے پر جب حکومت کوخود اپنی جان کے لالے پڑنے کے ساتھ ساتھ آئندہ انتخابات اور خاص کر حکمران پارٹی میں شروع ہونے والی رائٹ سائزنگ جیسے چیلنج درپیش ہیں تو ایسے میں کوئی بے وقوف سیاسی خود کش ہی اٹھارویں ترمیم جیسے نازک اور حساس ایشوکو چھیڑکراپنی قبر خود ہی کھودے گا۔