اور فیصلہ آ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

292

اپنی پارٹی کے تا حیات قائد بن جانے والے میاں نواز شریف تا حیات نا اہل قرار دے دیے گئے ۔ عدالت عظمیٰ نے57دن سے لکھا رکھا 60 صفحات کا فیصلہ جمعہ کو سنا دیا ۔ بیشتر مبصرین کے نزدیک فیصلہ غیر متوقع نہیں ہے ۔ گزشتہ جولائی میں جب میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا تھا اسی وقت سے یہ بحث جاری تھی کہ انہیں 62-1-F کے تحت سزا دی گئی ہے تو اس نا اہلی کی مدت کیا ہو گی ۔ یہ مدت 5 سال یا قومی اسمبلی کی مدت ختم ہونے تک بھی ہو سکتی تھی ۔ لیکن دوسری طرف یہ دلیل تھی کہ کوئی شخص اگر ایک بار جھوٹا اور غیر امین وغیر صادق قرار دے دیا جائے تو کچھ عرصے بعد وہ سچا اور امین و صادق کیسے ہو جائے گا اخلاقی جرم کے کسی مرتکب سے تو یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ سزا ملنے کے بعد اپنی اصلاح کر لے گا لیکن جھوٹا تو جھوٹا ہی رہے گا ۔ عدالت عظمیٰ کے مذکورہ فیصلے پر ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے اور میاں نواز شریف کے حواری حسب توقع اپنی شدید برہمی کا اظہار کر رہے ہیں ۔ وزیر مملکت مریم اورنگزیب صرف نواز شریف کی ترجمانی کا حق ادا کر رہی ہیں ۔ انہوں نے جوش میں آ کر بڑی عجیب بات کہی ہے کہ یہ فیصلہ نامعلوم لوگوں نے کیا ہے ۔ یہ نامعلوم لوگ کون ہیں؟ ان کا واضح مطلب یہ ہے کہ فیصلہ عدالت عظمیٰ کے ججوں کا نہیں بلکہ ان سے کرایا گیا ہے یعنی اسٹیبلشمنٹ اس فیصلے کے پیچھے ہے ۔ میاں نواز شریف تو اپنی نا اہلی کے بعد سے کہتے آ رہے ہیں کہ عدلیہ اور طاقت نے گٹھ جوڑ کر لیا ہے ۔ ان کے دیرینہ ساتھی چودھری نثار بھی کئی بار سمجھا چکے ہیں کہ عدلیہ اور فوج سے تصادم مول نہ لیں لیکن میاں نواز شریف سمجھے بیٹھے ہیں کہ ان کی کامیابی مزاحمت کی سیاست میں ہے اور اب تو وہ کئی بار یہ خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کہ اڈیالہ جیل میں صفائی ، ستھرائی ان کے استقبال کے لیے ہو رہی ہے اور جیل افسران کو کیسے معلوم ہوا کہ کوئی آ رہا ہے ۔ حالانکہ جیلوں میں صفائی ستھرائی اور لوگوں کا آنا جانا معمول کی بات ہے ۔ نواز شریف نے گزشتہ جمعرات کو بھی سوال اٹھایا کہ 40 تفتیشی کون تھے؟ عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے پوچھا کہ ’’تحقیقات کے لیے کن لوگوں کا سہارا لیا گیا ۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ بنانے کے لیے 30 تفتیشی اہلکار اور عملے کے 10 افراد کون سے محکمے سے آئے تھے ، کس نے یہ لوگ جے آئی ٹی کو دیے اور یہ کردار کیوں سونپا گیا ۔ واجد ضیاء سے پوچھو تو وہ کہتے ہیں میں نہیں بتا سکتا‘‘۔ وہ نہیں بتا سکتے تو میاں صاحب خود ہی بتا دیں ، اب تو ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں رہا ، کہہ دیں کہ یہ لوگ آئی ایس آئی سے بھیجے گئے تھے ۔ لیکن کیا آئی ایس آئی پاکستان ہی کا انٹیلی جنس ادارہ نہیں ہے؟ تفتیشی اہلکار کسی بھی محکمے سے تعلق رکھتے ہوں اصل بات تو تحقیق و تفتیش کے نتائج ہیں جو عدالت عظمیٰ میں پیش کیے جاتے ہیں اور ان پر بحث ہوتی ہے جس میں میاں صاحب کے وکلاء بھی حصہ لے رہے ہیں ۔ حتمی فیصلہ تو عدالت عظمیٰ کے جج کرتے ہیں ۔ میاں صاحب پر ابھی اور بھی مقدمات چل رہے ہیں لیکن انہیں اطمینان رکھنا چاہیے کہ اگر ا ن مقدمات کی پیروی واجد ضیاء کریں گے تو نواز شریف کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ واجد ضیاء روز ایک نیا بیان دیتے ہیں جس سے نواز شریف کے خلاف مقدمہ کمزور کرنے میں مدد مل رہی ہے ۔ اس موقع پر میاں صاحب نے کہا کہ میں اور قوم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ نا معلوم لوگ کون سے ہیں جنہوں نے یہ کردار ادا کیا ۔ اگلے دن یہی جملہ مریم اورنگزیب کے منہ پر آ گیا ۔ لیکن میاں صاحب! قوم کو بلا وجہ اپنے معاملات میں شریک نہ کریں ، قوم بالکل یہ نہیں جاننا چاہتی کہ بقول آپ کے ، نا معلوم لوگ کون ہیں ۔ کیا آپ نے کبھی اپنے معاملات میں قوم کو شریک کیا ، کیا معاملہ عدالت میں پہنچنے سے پہلے آپ نے قوم کو بتایا کہ آپ ایک عرب ریاست کے اقامے پر وہاں ملازمت کر رہے تھے ۔ میاں صاحب، قوم کی نمائندگی پارلیمان کرتی ہے لیکن آپ نے کبھی اس کو در خور اعتنا نہیں سمجھا ۔ ذرا قوم کو بتایے کہ آپ اپنی حکمرانی کے دور میں کتنی بار پارلیمان گئے اور اس کودقعت دی ۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ تو آج بھی کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے میاں صاحب سے بار بار درخواست کی کہ پاناما کا معاملہ عدالت میں نہ لے جائیں بلکہ پارلیمنٹ میں لائیں ۔ لیکن ایک نہیں سنی ۔ معاملہ پارلیمان میں جاتا تو میاں صاحب ہر الزام سے بچ نکلتے ۔ اب پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ فرما رہے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا جو اسے مسترد کر دے گی اور عدالت عظمیٰ بھی اسے ماننے پر مجبور ہو گی کیونکہ پارلیمنٹ عدالت پر فوقیت رکھتی ہے ۔آئین کی شق 62-1-F کے تحت عمران خان کے قریب ترین ساتھی جہانگیر ترین کو بھی عمربھر کے لیے نا اہل قرار دیا گیا ہے اور تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کسی چوں چرا کے بغیر فیصلہ تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے البتہ جہانگیر ترین نے احتجاج کیا ہے کہ ان کا اور نواز شریف کا معاملہ بالکل مختلف ہے کیونکہ انہوں نے تو اپنے تمام اثاثے مع ثبوت ظاہر کر دیے تھے ۔ 2013ء کے بعد پیپلز پارٹی وزیر اعظم نواز شریف پر زور دیتی رہی ہے کہ آئین کی شق 62-63 ختم کر دی جائے جوجنرل ضیاء الحق نے شامل کی تھی ۔ اس میں پیپلز پارٹی کا بھی مفاد تھاگو کہ صدر آصف علی زرداری کبھی پکڑ میں نہیں آئے ۔جہاں تک ان شقوں کا تعلق ہے تو پاکستان کے آئین میں ان کا رہنا بہت ضروری ہے کیونکہ یہاں کی سیاست میں صادق اور امین بمشکل دستیاب ہیں اور اگر یہ شقیں ختم کر دی گئیں تو غلط قسم کے لوگوں کو ہر طرح کی چھوٹ مل جائے گی اور وہ ہر خوف سے بے نیاز ہو جائیں گے ۔ بعض قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ عدالت عظمیٰ کے 5 ججوں پر مشتمل بینچ کے فیصلے کو لارجر بینچ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے ۔ یعنی ابھی کہانی ختم نہیں ہوئی ۔ لیکن اس فیصلے کے بعد ممکن ہے کہ ن لیگ کی شاخوں پر بیٹھے پنچھیوں کی اُڑان کا سلسلہ تیز ہو جائے ۔