جامعات ترمیمی بل کی منظوری

225

سندھ حکومت کا جامعات سے متعلق منظور کردہ متنازع بل دستخط کے لیے گورنر سندھ کو بھیجا گیا تھا جو انہوں نے اعتراض لگا کر سندھ اسمبلی کو واپس بھیج دیا ۔ لیکن جمعہ کو سندھ اسمبلی نے مذکورہ بل بغیر کسی ترمیم کے جوں کا توں منظور کر لیا اور ثابت کیا کہ حکومت سندھ کوئی معقول اعتراض بھی قبول کرنے پر تیار نہیں۔ شاید یہ خیال ہو کہ اگر گورنر کی طرف سے واپس کیے گئے بل میں سے متنازع شقیں نکال دی گئیں تو یہ وفاق کے سامنے سر جھکانے کے مترادف ہو گا ۔ چنانچہ جمعرات ہی کو وزیر اعلیٰ سندھ نے اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ گورنر کو یونیورسٹیوں کا مالک بننے کا حق نہیں‘‘۔ یعنی جامعات کے مالکانہ حقوق تمام تر وزیر اعلیٰ کے پاس ہیں ۔ اس کی وجہ بھی مراد علی شاہ نے خود ہی بیان کی کہ ہم صوبے کی جامعات کو 5 ارب روپے دیتے ہیں ۔ گویا اس طرح حکومت سندھ یا وزیر اعلیٰ نے جامعات کو خرید لیا ہے اور اب وہ ان کے ساتھ جو سلوک چاہیں کریں ۔ لیکن کیا اعلیٰ تعلیم کے یہ ادارے برائے فروخت ہیں اوریہ طے ہونا ہے کہ ان کا مالک کون ہے ۔ اب اگر اس پر کوئی اعتراض کیا جائے تو فوراً آئین میں 18ویں ترمیم یاد آ جاتی ہے اور نعرہ لگتا ہے کہ کسی کو یہ آئینی ترمیم لپیٹنے نہیں دیں گے ۔ اس ترمیم کے تحت صوبوں کو اپنے معاملات میں خود مختار بنایا گیا ہے چنانچہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہر صوبہ اس سے فائدہ اٹھا کر ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا خاص طور پر تعلیم کے حساس ترین شعبے میں بہتری لائی جاتی ۔ اس بل پر اساتذہ ، طلبہ اور سیاسی جماعتوں نے جو اعتراضات کیے ہیں وہ مراد علی شاہ کے علم میں تو ہوں گے ۔ چنانچہ مناسب تھا کہ اسمبلی میں ان اعتراضات کا جواب دیا جاتا اور دلائل سے منظور یا مسترد کیا جاتا ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور جس طرح بل منظور ہوا ہے اسے طاقت کا مظاہرہ کہا جا سکتا ہے ۔ جمعرات کو بھی اس بل پر ادھوری بحث میں حزب اختلاف کے ارکان نے کہا تھا کہ سندھ حکومت کو ہمیشہ اپنے اختیارات کی فکر رہتی ہے ۔ صوبے میں امتحانات کے دوران نقل مافیا کے سامنے حکومت بے بس نظر آئی ۔ جناب مراد علی شاہ جامعات کے معاملے کو اپنی انا کامسئلہ نہ بنائیں اور اپنی پارٹی سے باہر کے ماہرین تعلیم سے مشاورت کر کے معقول رویہ اختیار کریں ۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں ۔ تعلیمی ادارے قائم رہتے ہیں ۔