اپنی حکومت کے اختتام سے چند ہفتے پہلے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک چار نکاتی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم جاری کردی ہے اور صدر مملکت نے اس سلسلے میں چار آرڈیننس منظور کرلیے ہیں جو فوری طور پر نافذ العمل ہوں گے۔ اس طرح اس اسکیم کا اطلاق 10 اپریل سے لے کر 30 جون 2018ء تک ہوگا جب کہ سیاستدان اور ان کے اہل خانہ اس اسکیم سے باہر رکھے گئے ہیں۔ اسکیم کے اعلان کے بعد ہی سیاستدانوں، ماہرین معیشت، کاروباری حلقوں اور تجارتی تنظیموں میں بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ اس سے کرپشن اور منی لانڈرنگ میں اضافہ ہوگا۔ عمران خان نے بھی اس کی مخالفت کی ہے اور اعلان کیا ہے کہ جو اس اسکیم سے فائدہ اٹھائے گا ہم حکومت میں آکر اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اصل میں اس اسکیم کے ذریعے ٹیکس ریٹ میں کمی کرکے شہروں میں رہنے والی مڈل کلاس آبادی کو خوش کیا جارہا ہے تا کہ اس کا ووٹ شیر کے ڈبے میں جائے۔ اس طرح یہ اعتراض بھی اہم ہے کہ وہ دولت مند طبقے جنہوں نے ناجائز دولت کمائی اور غیر قانونی طریقے سے چھپائے رکھا اور ٹیکس کی چوری کی وہ اپنے کالے دھن کو 2 سے 5 فی صد ادائیگی کے ذریعے قانونی بناسکتے ہیں اس سے اُن ایماندار ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی اور وہ بھی آئندہ ٹیکس چوری کا راستہ تلاش کریں گے۔ چناں چہ اصل میں یہ اسکیم ملک کے گنے چنے بااثر دولت مند طبقوں کے مفاد میں جاری کی گئی ہے۔ جہاں تک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا تعلق ہے پاکستان میں اس سے پہلے بھی کئی بار ایسی اسکیمیں جاری کی گئیں، خود موجودہ حکومت نے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے دو سال پہلے ایک اسکیم جاری کی تھی اور اندازہ تھا کہ اس سے 10 لاکھ چھوٹے تاجر ٹیکس نیٹ میں شامل ہوجائیں گے لیکن چند ہزار تاجر بھی اس اسکیم کے ذریعے آسکے۔
دوسری طرف کاروباری تنظیموں، صنعت کاروں اور ماہرین معیشت نے اس اسکیم پر مثبت اور اُمید افزا خیالات کا اظہار کیا ہے مثلاً ایسی اسکیمیں بیرون ممالک سے سرمایہ واپس لانے کے لیے بھارت، انڈونیشیا، جنوبی افریقا، روس اور مغربی ممالک نے بھی جاری کی ہیں۔ پاکستان میں غیر یقینی، دہشت گردی، لاقانونیت کے باعث بے شمار کاروباری لوگ اپنا سرمایہ باہر لے گئے اور اس سرمایے کا بڑا حصہ رئیل اسٹیٹ میں لگادیا۔ ایک اندازے کے مطابق 100 سے 150 ارب ڈالر پاکستانیوں کے پراپرٹی کے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں جب کہ سخت بینکنگ قوانین اور مختلف ممالک کے درمیان معلومات کی رسائی کے معاہدوں کے باعث ایسے لوگوں کے لیے بیرون ملک پیسہ رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ چناں چہ اس اسکیم کے تحت 5 سے 6 ارب ڈالر پاکستان آنے کا امکان ہے۔ یہ اسکیم انڈونیشین اسکیم سے مطابقت رکھتی ہے اور انڈونیشیا میں اس اسکیم سے 100 ارب ڈالر اندرون ملک ٹرانسفر ہوئے تھے۔ اس لیے حکومت پاکستان کو بھی ڈالروں کی آمد کی قومی اُمید ہے۔
ایک اور حیران کن بات اس اسکیم میں انکم ٹیکس میں رعایت کی ہے، پہلے چار لاکھ سالانہ آمدنی سے زاید پر انکم ٹیکس لاگو ہوجاتا تھا اور اس کی شرح دس فی صد تھی جب کہ انکم ٹیکس کی آخری شرح 35 فی صد تھی۔ اب سالانہ 12لاکھ تک آمدنی والے انکم ٹیکس سے آزاد ہوگئے اور اس طرح موجودہ ٹیکس نیٹ کے حساب سے تقریباً 5 لاکھ ٹیکس دھندگان کو فائدہ پہنچا۔ جس ملک میں ویسے ہی سات لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ 5 لاکھ افراد کے نکل جانے سے ٹیکس نیٹ میں کیا بچا۔ دوسرے ٹیکس کی شرح بھی کم کردی، اس سے یقیناًلوگوں کی آمدنی میں 30 سے 55 فی صد اضافہ ہوگیا۔ مگر اس طرح 400 ارب روپے ٹیکس آمدنی میں کم ہوگئے وہ کمی کہاں سے پوری ہوگی جب کہ ہمارے تمام ہی بجٹ خسارے کے بجٹ ہوتے ہیں یعنی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ۔ اب خسارہ اور بڑھ جائے گا، حکومت کو اس سلسلے میں اُمید ہے کہ جب ہم نے ٹیکس کی شرح 35 فی صد سے کم کرکے 15 فی صد کردی ہے اس سے ٹیکس کے دائرے میں زیادہ لوگ آئیں گے اور انکم ٹیکس کی وصولیابی بجائے کم ہونے کے بڑھ جائے گی۔
اس اسکیم میں نان فائیلر جو ٹیکس گوشوارہ جمع نہیں کراتے اُن پرکئی پابندیاں لگائی گئیں۔ مثلاً یہ لوگ فارن کرنسی اکاؤنٹس نہیں کھول سکیں گے اور 40 لاکھ روپے سے زیادہ مالیت کی پراپرٹی نہیں خرید سکیں گے۔ اس طرح لوگوں کو گویا آمادہ کیا جارہا ہے کہ وہ ٹیکس کے گوشوارے جمع کرائیں۔ یہ ایک بہتر کوشش ہے مگر اصل معاملہ ایف بی آر کے افسران اور اہلکاروں کا ہے جو ٹیکس دہندگان کو ٹیکس چوری اور ٹیکس کی کم ادائیگی پر مجبور کرتے ہیں اور رشوت لے کر اُن کی جان چھوڑ دیتے ہیں اس لیے زیادہ تر لوگ ایف بی آر کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتے۔ چناں چہ اس طرح کی اسکیموں کے بجائے ایف بی آر میں اصلاحات کی جائیں اس ادارے میں کرپشن کو ختم کیا جائے۔ ایمانداری اور محنت کو شعار بنایا جائے تو جلد ہی ٹیکسوں کا حجم دگنا ہوسکتا ہے اور کئی معاشی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔