کے الیکٹرک کے خلاف عوام کا غصّہ 

235

کے الیکٹرک اپنے معاملات درست کرنے پر تیار نظر نہیں آتی اور عوام کے ہر طبقے کے احتجاج کے باوجود اس نے شہریوں پر لوڈشیڈنگ کے نام سے عذاب مسلط کر رکھا ہے۔ نیپرا کی ٹیم کی کراچی آمد کا بڑا چرچا ہوا اور یہ گمان ہونے لگا کہ شاید صورتحال کا نوٹس لے کر حالات کو بہتر بنا سکے گی۔ لیکن آئے بھی وہ، گئے بھی وہ، معاملات اور زیادہ خراب ہو گئے۔ نیپرا کے ایک ذمے دار کا کہنا ہے کہ نیپرا کی ٹیم تو آتی ہی رہتی ہے۔ کوئی پہلی بار نہیں آئی۔ اس کا مطلب ہے کہ نیپرا سے کوئی توقع رکھنا عبث ہے۔ جب حکمران کچھ نہیں کر سکے تو نیپرا وغیرہ کیا چیز ہے۔ نواز شریف نے کچھ دن پہلے ہی ایک جلسے میں اپنا دعویٰ دہرایا تھا کہ ہم نے دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر دیا۔ خدا کرے کہ لوڈشیڈنگ کی طرح دہشت گردی کے معاملے میں ان کا دعویٰ غلط نہ نکلے۔ لیکن لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے بے بنیاد دعوؤں پر تو نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف کو کم از کم شرمندگی کا مظاہرہ تو کرنا چاہیے۔ حکومت تو اب بھی ن لیگ کی ہے اور نواز شریف کے منتخب کردہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی وہی راگ الاپ رہے ہیں کہ لوڈشیدنگ ختم کر دی ہے۔ ن لیگ کی حکومت اپنے 5 سال پور کر رہی ہے لیکن بڑے بڑے دعوؤں اور نام بدل ڈالنے کی پیشکش کے باوجود لوڈشیڈنگ بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ معاملہ صرف کراچی کا نہیں، پورے ملک کا ہے۔ حکومت سب سے مساوی سلوک کر رہی ہے بس یہ ہے کہ کہیں 8 گھنٹے اور کہیں 16 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ پنجاب میں تو بجلی دو گھنٹے کے لیے جاتی ہے لیکن بلوچستان میں تو آتی ہی دو گھنٹے کے لیے ہے۔ پنجاب کے بارے میں ان کی بات صحیح نہیں ہے۔ کراچی میں صورتحال خراب ہوتی نظر آ رہی ہے اور تنگ آئے ہوئے عوام مشتعل ہو رہے ہیں۔ گزشتہ جمعہ ہی کو بلدیہ ٹاؤن میں بپھرے ہوئے شہریوں نے کے الیکٹرک کی ٹیم پر حملہ کر دیا۔ یہ معاملہ بڑھ بھی سکتا ہے۔ لوڈشیڈنگ کے خلاف تاجر بھی سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور لوڈشیڈنگ کو ریاستی دہشت گردی قرار دے دیا ے۔ ان کا کاروبار ٹھپ ہو رہا ہے، دکاندار ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو جماعت اسلامی کراچی نے شہر بھر میں 50 مقامات پر احتجاج کیا ہے اور امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم نے اعلان کیا ہے کہ 20 اپریل کو وزیراعلیٰ ہاؤس کا گھیراؤ کیا جائے گا، 27 اپریل کو ہڑتال کریں گے۔ انہوں نے ریڈ زون میں داخل ہونے کا اعلان بھی کیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ بے چارہ تو وفاق کو دو خط بھجوا کر مطمئن ہو گیا ہے۔ کے الیکٹرک کے دفاتر کا گھیراؤ کوئی ناخوشگوار صورتحال پیدا کر سکتا ہے۔ عوام تنگ آمد بجنگ آمد کے موڈ میں ہیں۔کے الیکٹرک اب بھی باز آ جائے۔